25مئی 1989 ءکو پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک کا قیام عمل میں آیا اور آئندہ چل کر ڈاکٹر صاحب کی علمی شخصیت کے باعث جماعت نے اپنے وجود کا احساس بھی دلایا۔ اگر چہ اس وقت سیاست کی لونڈی بڑے بڑے جاگیرداروں کے ہاں قیام کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے سرمایہ داروں کی راکھیل بن چکی تھی، تعلیم یافتہ ، پڑھے لکھے متوسط گھرانے کے لوگوں کو ڈاکٹر صاحب کی شکل میں ایک آئیڈیل سیاستدان نظر آنے لگا۔
بلا شبہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا جب 1999 ءمیں عوامی تحریک کے قیام کے فقط دس سال بعد نواز شریف حکومت کے خلاف بننے والے سب سے بڑے اتحاد پاکستان عوامی اتحاد کی سربراہی ڈاکٹر صاحب کے حصہ میں آئی جس میں نوابزادہ نصر اللہ خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو جیسے سیاستدان شامل تھے۔
2002ءکے انتخابات میں عوامی تحریک ملک کی تیسری ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت نظر آئی جس نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بعد سب سے زیادہ امیدوار میدان میں اتارے۔
اگر چہ ڈاکٹر صاحب اپنی نشست کے علاوہ کوئی دوسری نشست نہ جیت سکے یہ وہ دور تھا جب عوامی تحریک ہر اعتبار سے تحریک انصاف سے آگے نظر آتی تھی۔ جماعت اور اس کی قیادت میں سیاسی پالیسیوں کا تسلسل تھا جس کے باعث جماعت ایک پاپولر جماعت کے طور پر آگے بڑھ رہی تھی۔
2013 ءاور 2014ءکے انقلاب مارچ کو عوامی تحریک کی سیاست کا نقطہ عروج کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کیونکہ 1977 ءکی بھٹو کے خلاف سیاسی تحریک کے بعد 2014 ءمیں انقلاب مارچ کی تحریک پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک تھی جس میں سانحہ ماڈل ٹاو¿ن پاکستان کے سیاسی منظر نامے کا ایک بڑا سانحہ نظر آتا ہے۔
2014 کے بعد ڈاکٹر صاحب پاکستان کے سیاسی حالات سے سیاسی کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے مایوس ہو کر دیار غیر کینیڈا تشریف لے گئے جبکہ عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد میں تسلسل برقرار رکھا اور 2018ءکے انتخابات میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے 2019 ء میں سیاست سے عملی طور پر ریٹائر منٹ کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔
عوامی تحریک کے معاملات ان کے بچوں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے سپرد ہو گئے جو سیاست کے میدان کے ناتجربہ کار کھلاڑی تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی شبانہ روز محنت سے قیادت کی جو ایک کھیپ تیار کی تھی ان کو سائیڈ لائن کر دیا گیا جس میں محترم چوہدری محمد حنیف مصطفوی، بشارت عزیز جسپال، تنویر خان ، سردار بشیر خان لودھی، ڈاکٹر رحیق عباس ، شیخ زاہد فیاض، ساجد محمود بھٹی وغیرہ نمایاں ہیں۔
2014 ءکی عوامی تحریک اور 2024 ءکی عوامی تحریک میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ 2014 ءمیں عوامی تحریک پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر ایک ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت تھی جبکہ 2024 ءمیں انتخابات میں بدترین شکست کی صورت حال یہ ہے کہ عوامی تحریک کا کوئی بھی امیدوار 1000سے زائد ووٹ حاصل نہ کر سکا ہے جبکہ پورے پاکستان سے اکٹھے کیے گئے ووٹوں کو جمع کیا جائے تو ووٹوں کی مجموعی تعداد سات ہزار سے کم رہتی ہے جبکہ اسی جماعت نے 2002ءکے انتخابات میں فقط شکر گڑھ میں میرے آبائی حلہ این اے 115 سے 11 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔
عوامی تحریک کی سیاست میں بدترین ناکامی کی وجوہات پر غور کریں تو بنیادی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ 2015ءکے بعد ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاست سے علیحدگی اور 2019ءمیں ا±نکی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد ا±ن جیسی کوئی قد آور لیڈرشپ کا میسر نہ آنا ہے۔
دوسری اہم وجہ ان کے بچوں کی سیاست سے کلیتاً عدم دلچسپی ہے۔ آپ کو عوامی تحریک کے اندر قومی سطح تو در کنار ، صوبائی یا ڈویڑنل سطح کی کوئی سیاسی شخصیت نظر نہیں آئے گی۔ پارٹی معاملات ہینڈل کرنے کے لئے فوجی ڈسپلن کا تجربہ رکھنے والے میجر ریٹائرڈ خرم نواز گنڈا پور صاحب کی شکل میں ایک بہترین ایڈ منسٹریٹر دستیاب ہیں جن کی بنیادی طور پر دو انتہائی اہم ذمہ داریاں ہیں۔
ایک یہ کہ ہر سیاسی کارکن کو اس طرح دبا کر رکھنا کہ وہ لیڈر بننے کی جستجو نہ کرے اور جو باصلاحیت کارکن نظر آئے اسے سائیڈ لائن کر دیا جائے جبکہ دوسری اہم ذمہ داری عید الضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی دیکھ بھال کرنا ہے تا کہ کوئی گائے، بھینس، بکری، یا بکرہ مسنگ پرسن“ میں شامل نہ ہو جائے۔ دوسری ہر دلعزیز قیادت ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے فرمانبردار داماد محترم راجہ زاہد محمود صاحب کی ہے جو قوالی کی محافل کے انعقاد کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
ممکن ہے انھوں نے اپنے ذہن میں یہ سوچ رکھا ہو کہ عوامی تحریک کے برسر اقتدار آتے ہی وہ اپنے لیے قوالی کی سپیشل وزارت قائم کر لیں گے۔ وزارت قوالی کا منصب سنبھالنے کے بعد وہ پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک قوالی کی محافل سے حاصل ہونے والی آمدنی سے آئی ایم ایف کا قرضہ بھی اتار دیں گے۔ اگر سارا قرضہ نہ اتر سکا تو وہ آئی ایم ایف سے کہیں گے کہ آپ ایک دفعہ قوالی سن لیں آپ خود ہمیں قرضہ معاف فرما دیں گے۔
محترم خرم نواز گنڈا پور اور محترم راجہ زاہد صاحب کے بعد پارٹی کے اندر قیادت کو خورد بین سے ڈونڈھنے کی جستجو کریں تو قائدین کی بجائے کلرکوں کی ایک ٹیم دکھائی دیتی ہے۔ جن میں اکثر اوقات کلرک ایک دوسرے کی ٹانگوں کو پکڑ کر کھینچتے دکھائی دیتے ہیں۔ تا کہ کسی دوسرے کلرک کا قد اس سے بڑھا نہ ہوجائے۔ اکثر اوقات کلرک اپنا قد بڑا کرنے کے لیے فیلڈ سے آئے کارکنان پر رعب بھی جھاڑتے نظر آتے ہیں؟ وہ معصوم کارکنان جنکو PAT کےٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے
عوامی تحریک کا اصل سرمایہ وہ سیاسی قائدین تھے جنھیں الگ کر دیا گیا یا ان کے لئے ایسا ماحول پیدا کر کیا گیا کہ وہ اپنی سیاسی جدو جہد کا راستہ الگ کر لیں وہ تمام قائدین جنھوں نے عوامی تحریک کو ملکی سطح کی پارٹی بنانے کے لیے دن رات کام کیا۔ تحریک کی بے لوث مالی، سیاسی ، اخلاقی اور قانونی مدد کی شاید ان کی تحریک اور اس کے نظریہ سے بے لوث محبت ہی ان کا جرم ٹھہری!
ہوئی نہ قائم جہاں میں کبھی حکومت عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں!
٭....٭....٭
پاکستان عوامی تحریک کی انقلابی قیادت اور انتخابات میں بدترین شکست؟
Mar 02, 2024