نومنتخب حکومت اور عوام کو پٹرولیم نرخوں میں مزید اضافہ کی صورت میں سبکدوش ہونیوالی نگران حکومت کا آخری ”تحفہ“ بھی موصول ہو گیا ہے۔ یہ اضافہ 29 فروری کی شب ایک نوٹیفکیشن کے تحت کیا گیا۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کے نرخوں میں چار روپے 13 پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے اور ڈیزل کے نرخ برقرار رکھے گئے ہیں۔ اضافے کے ساتھ پٹرول کی نئی قیمت 279 روپے فی لٹر مقرر ہوئی ہے۔ اسی طرح مٹی کے تیل کے نرخوں میں بھی فی لٹر ایک روپے 44 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ مٹی کے تیل کے نئے نرخ فی لٹر 190 عشاریہ صفر ایک روپے مقرر ہوئے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے یہ نرخ 15 مارچ تک موثر رہیں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارے خطہ کیلئے اوپیک کے جاری کردہ پٹرول کے نرخ 82 عشاریہ 48 ڈالر فی بیرل تھے جو عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم نرخوں میں کمی کے رجحان کی عکاسی کررہا ہے۔ اس وقت خام تیل کے عالمی نرخ 78 عشاریہ 18 ڈالر فی بیرل ہیں اور گزشتہ چار ماہ سے عالمی مارکیٹ میں تقریباً اسی سطح پر معمولی ردوبدل کے ساتھ برقرار ہیں۔ اس بنیاد پر پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھنے کے بجائے کم ہونے چاہئیں مگر گزشتہ دو پندھرواڑوں میں پٹرولیم نرخوں میں اضافہ کرکے عوام کے غربت‘ مہنگائی کے مسائل مزید بڑھائے گئے ہیں جو اس امر کا بھی واضح عکاس ہیں کہ ہمارے پٹرولیم نرخوں کا دارومدار عالمی مارکیٹ کے نرخوں پر نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر ہے جس کی ہر شرط من و عن قبول کرنا ہمارے ہر حکمران کی مجبوری بن چکا ہے۔
اس تناظر میں ماہانہ اکنامک اپ ڈیٹ آﺅٹ لک کی جاری کردہ گزشتہ روز کی رپورٹ کا جائزہ لیں تو عوام کیلئے آئندہ کچھ عرصہ تک مہنگائی کے مزید اور جان لیوا طوفان اٹھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس رپورٹ میں سبکدوش ہونیوالی نگران حکومت نے نئی منتخب حکومت کیلئے روڈ میپ وضع کیا ہے جس میں آئی ایم ایف کے ساتھ آخری اقتصادی جائزہ مکمل کرنے پر زور دیتے ہوئے اس سے نئے پروگرام کیلئے جلد رجوع کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس طرح موجودہ عبوری بیل آﺅٹ پیکیج کی تکمیل کے ساتھ ہی پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کا نیا معاہدہ ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔ جب یہ معاہدہ اپنی شرائط کے ساتھ لاگو ہوگا تو گزشتہ معاہدوں کی شرائط کے تناظر میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سلطانی ¿ جمہور کے نئے مرحلے میں عوام کا مہنگائی کے ہاتھوں کیا حشر ہونے والا ہے جبکہ انکی تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنے کی سکت پہلے ختم ہو چکی ہے۔ آﺅٹ لک کی رپورٹ میں نئی حکومت پر جہاں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایف بی آر کی تنظیم نو کیلئے ضروری اصلاحات کرے وہیں مشکل اصلاحات کیلئے آئی ایم ایف سے میڈیم ٹرم سہولت لینا بھی لازمی گردانا گیا ہے اور پی آئی اے سمیت خسارے کا شکار اداروں کی نجکاری بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں رواں ماہ مہنگائی 25 عشاریہ پانچ فیصد رہے گی اور آئندہ ماہ اپریل میں یہ شرح 24 عشاریہ پانچ فیصد تک آجائیگی۔ رپورٹ میں رواں مالی سال کے سات ماہ کے دوران ترسیلات زر میں پچاس کروڑ ڈالر کی کمی کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔ اسی طرح اس عرصے کے دوران غیرملکی سرمایہ کاری میں 21 عشاریہ چار فیصد کمی ہوئی ہے اور جولائی 2023ءتا جنوری 2024ءمالیاتی خسارے میں 43 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہی وہ مالی اور اقتصادی مشکلات ہیں جن کا نئی اتحادی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی سامنا کرنا پڑگا۔ پٹرولیم نرخوں میں اضافے کے بعد مہنگائی میں مجموعی طور پر مزید جو اضافہ ہوگا وہ بھی نئی حکومت کے گلے پڑیگا اور اسے اپنی گورننس اور جمہوری نظام پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کا سخت چیلنج درپیش ہوگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کے انعقاد کیلئے تشکیل پانے والی نگران حکومت کا ایجنڈا محض انتخابات کے انعقاد کا نہیں تھا بلکہ وہ آئی ایم ایف کے تین ارب ڈالر کے عبوری بیل آﺅٹ پیکیج کی تمام شرائط کے ساتھ تکمیل کے ایجنڈے کے ساتھ تشکیل دی گئی چنانچہ اس حکومت نے پی ٹی آئی حکومت اور اسکے بعد اتحادی حکومت کی اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کے نتیجہ میں مہنگائی کے سونامیوں کی لپیٹ میں آکر زندہ درگور ہوئے عوام کو ”مرے کو مارے شاہ مدار“ کے مصداق بے رحمی کے ساتھ مہنگائی کی کند چھری سے ذبح کرنے کی پالیسی اختیار کئے رکھی اور ان کی کسی چیخ و پکار کا نگرانوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔
اس بنیاد پر عوام نے نگران سیٹ اپ کو بھی اتحادیوں کی حکومت کے تسلسل سے ہی تعبیر کیا جس میں شامل جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو انتخابی میدان میں عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر یہ تنقیدی نشتر اسکی سابقہ اتحادی حکومتی جماعت پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی شدومد کے ساتھ چلائے جاتے رہے۔ اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سلطانی ¿ جمہور کے نئے سفر میں دوبارہ حکومتی اتحادی کا لبادہ اوڑھ چکی ہیں تو اس حکومت کو پہلے سے بھی زیادہ عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے چیلنجز درپیش ہونگے جو آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آﺅٹ پیکیج کے نئے معاہدے کی بناءپر مزید گھمبیر ہو سکتے ہیں۔
اس وقت بے شک اتحادی جماعتوں نے وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کے تمام مراحل اپوزیشن کی معمولی سی مزاحمت کا سامنا کرتے ہوئے طے کرلئے ہیں۔ جمعة المبارک کے روز قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب بھی عمل میں آچکا ہے اور کل بروز اتوار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نئے وزیراعظم کا انتخاب بھی عمل میں آجائیگا جبکہ صدر مملکت کیلئے بھی حکومتی اتحادی جماعتوں کے امیدوار آصف علی زرداری کی کامیابی نوشتہ دیوار ہے چنانچہ معیشت کی دگرگوں صورتحال اور عوام کے مسائل کا سارا بوجھ اتحادیوں کی حکومت کو ہی اٹھانا ہے۔ فی الوقت پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے وزارتیں قبول نہ کرنے کی پالیسی اختیار کرکے آنیوالی مہنگائی کا بوجھ بھی اٹھانے سے گریز کی حکمت عملی طے کی ہے اور انکی کوشش ہے کہ گھمبیر عوامی مسائل پر انکی ساری نفرت و حقارت مسلم لیگ (ن) کی جانب ہی منتقل ہو۔ چنانچہ یہ صورتحال بطور خاص نئے وزیراعظم میاں شہبازشریف اور پھر مسلم لیگ (ن) کیلئے چیلنجنگ ہوگی جو عوام کی گزشتہ دور والی بدگمانیوں کی گٹھڑی کا بوجھ بھی اٹھا کر اقتدار میں آئی ہے۔ اس پارٹی کی قیادت نے ان کٹھن حالات سے کیسے عہدہ برا¿ ہونا ہے اور عوام میں اپنی سیاسی ساکھ کیسے بحال کرنی اور برقرار رکھنی ہے‘ یہی اس کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ آنیوالے حالات عوام کی اقتصادی مشکلات کم ہونے کا عندیہ دیتے تو ہرگز نظر نہیں آرہے۔