روس نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی نقل و حرکت شروع کردی ہے اور سڑکوں پر ایٹمی ہتھیاروں کے ٹرک نظر آرہے ہیں۔ ان حرکات کا مقصد امریکا، نیٹو اور یورپی یونین کو پیغام بھیجنا ہے کہ روس کسی صورت جنگ ہارنا نہیں چاہتا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے مغربی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ اگر نیٹو فوجیں یوکرائن جنگ میں شامل ہوئیں تو جوہری جنگ چھڑ سکتی ہے۔ پیوٹن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ روس یورپ پر حملہ نہیں کرنے جارہا۔ انھوں نے اس بات کو ایک بیکار خیال قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپ والے جھوٹ بول رہے ہیں۔ دوسری طرف دوسری جانب، غزہ میں امداد لینے کے لیے میدان میں جمع ہونے والے فلسطینی خواتین اور بچوں پر اسرائیلی فوج کی اندھا دھند فائرنگ میں 104 افراد شہید اور 760 زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں سے اکثریت کی حالت نازک ہونے کے سبب ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے خاموش تماشائی بن کر یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور زبانی جمع خرچ کے سوا ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ بس ہلکے پھلکے مذمتی بیانات جاری کردیے جاتے ہیں اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ان کی ذمہ داری بس اتنی ہی تھی۔ دنیا میں امن تب تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک طاقتور ممالک اور ان کے بغل بچوں کو لگام نہیں ڈالی جاتی اور اس کام کے لیے دنیا کے تمام ممالک کو مل کر کوشش کرنا ہوگی ورنہ یہ جوہری ہتھیاروں کی نمائش اور نہتے فلسطینیوں کو بدترین ظلم و ستم کا نشانہ بنانے جیسے واقعات دنیا میں ایک ایسی جنگ کی بنیاد بن سکتے ہیں جن کی وجہ سے پوری نسلِ انسانی کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جگہ اب ایک طاقتور عالمی ادارہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس کا صدر دفتر امریکا یا اس کے کسی اتحادی ملک میں نہیں ہونا چاہیے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یو این او اس قابل نہیں ہے کہ وہ دنیا میں قیامِ امن کے لیے ضروری اقدامات کرسکے۔