پارلیمنٹ کی بے توقیری کا ذمہ دار کون؟؟؟

Mar 02, 2024

محمد اکرم چوہدری

ملک میں نئی قومی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے، سردار ایاز صادق ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو چکے ہیں۔ گذشتہ روز تمام جماعتوں کے منتخب نمائندے قومی اسمبلی میں موجود تھے۔ سب اپنے اپنے قائدین سے محبت کا اظہار کر رہے تھے، سب کے لیے اپنی سیاسی قیادت کی خوشنودی ہی واحد مقصد دکھائی دیتا ہے۔ قومی اسمبلی میں گذشتہ روز تقاریر بھی ہوئی ہیں۔ ملک عامر ڈوگر کو مرحوم احمد ندیم قاسمی اور فیض احمد فیض بھی یاد آئے، اچھی بات ہے کیونکہ جب کوئی سیاست دان مشکل میں ہوتا ہے تو اسے یہ شعرا، شاعر انقلاب حبیب جالب یا انقلابی شاعری ہی متاثر کرتی ہے۔ سیاست دان ایسی صورت حال میں شعراء کا سہارا لیتے ہیں۔ ملک عامر ڈوگر نے ایک مرتبہ پھر انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی کے خلاف آواز بلند کی، اپنی مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی بات کی۔ عامر ڈوگر نے نئی حکومت کو مخلوط حکومت کا طعنہ بھی دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ یہ باتیں کرنے قومی اسمبلی آئے ہیں اور کب تک ہم ایسی سیاسی تقاریر پر اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے، کیا سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں صرف اسی لیے رہ گئی ہیں کہ وہاں سیاسی لڑائیاں ہوتی رہیں، جوتے چلتے رہیں، گھڑیاں لہرائی جائیں، چور چور ، شیر ،شیر یا جیے بھٹو کے نعرے لگتے رہیں۔ عامر ڈوگر کو 2024 کے انتخابی نتائج پر اعتراض ہے لیکن 2018 کے عام انتخابات کے نتائج پر انہیں تحفظات نہیں ہیں کیا دو ہزار اٹھارہ والے عام انتخابات شفاف تھے، اگر وہ شفاف نہیں تھے اور 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت سلیکٹ تھی تو پھر تاریخ میں درستگی کے لیے اصلاح کریں پھر آگے بڑھیں، رہی بات مخلوط حکومت کی تو پہلے دو ہزار اٹھارہ میں اپنی حکومت کے اتحادیوں پر نظر دوڑائیں پھر آج کی حکومت کو طعنے دیں۔ جناب یہ حوالے اصلاح اور تاریخ کی درستگی کے لیے ہیں۔ آپ کو ہزاروں ووٹ اس لیے نہیں ملے کہ قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر نعرے لگوائیں یا اپنے پسندیدہ سیاست دانوں کے مقدمے لڑتے رہیں۔ ملک کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے، ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، ملک کو معاشی استحکام کی ضرورت ہے لیکن جس جگہ سے یہ مسائل حل ہونے ہیں اور عدم استحکام کی جگہ استحکام آنا ہے وہاں تو ایسا کوئی منظر نہیں ہے، وہاں تو آغاز ہی لعن طعن، شور شرابے اور احتجاج سے ہوا ہے۔ عامر ڈوگر اور ان کے ساتھیوں کا امتحان ہے کیا وہ اس نظام کو لپیٹنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں یا پھر نظام کی مضبوطی میں حصہ ڈالتے ہیں۔ انہیں قومی اسمبلی میں آتے ہوئے طعنوں کے بجائے ملک کو آگے بڑھانے کی بات کرنی ہے اللہ کرے کہ وہ اور ان کے ساتھ قومی اتحاد کی سوچ اپنائیں۔ بظاہر ایسا نہیں لگتا کیونکہ یہ ایک ایسی اسمبلی ہے جہاں سب ایک دوسرے کو چور چور ہی کہہ رہے، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لیے ووٹنگ ہو رہی ہے اور نامناسب نعرے بازی ہو رہی ہے۔ یہ قوم کی رہنمائی کرنے والوں کا حال ہے، آپ سیاسی اختلاف رکھیں لیکن قومی اسمبلی کو تو قومی مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کریں۔ کیا کوئی ایسا ادارہ ہے جو اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی کارکردگی کا جائزہ لے، کیا کوئی ایسا نظام ہے جو عوام کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی کا احتساب کرے، پانچ سال میں کس نے کتنے اجلاسوں میں شرکت کی، کتنے پیپرز پیش کیے، کتنے ترقیاتی منصوبوں کے لیے کام کیا، یہاں سب نعرے لگانے آتے ہیں، اسی بنیاد پر ٹکٹیں لیتے ہیں، اپنا اپنا حصہ سمیٹتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے اراکین ہر اجلاس میں اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہیں، دوسروں کو آئین شکنی کے طعنے دینے والوں کو اپنا حلف بھی یاد رکھنا چاہیے۔ بہرحال نئی قومی اسمبلی کے آغاز میں ایک مرتبہ پھر وہی روایتی تقاریر، نعرے اور شور شرابہ ہو رہا ہے اور پچیس کروڑ لوگوں کے ملک میں جس ادارے نے آگے بڑھنے کے لیے کام کرنا ہے وہاں جانے والوں کو خود علم نہیں کہ انہوں نے کہاں جانا ہے۔ 
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کہتے ہیں "کچھ لوگ 22 کروڑ عوام کی پارلیمنٹ کو بکرا منڈی بنانا چاہتے ہیں۔ ہماری نئی پارلیمنٹ کا آغاز ہونے والا ہے، پارلیمان میں کوئی دوسرے کی بات کرنے کو تیار نہیں۔ آئین سے ہماری اسٹبلشمنٹ کھلواڑ کرتی ہے، یہ ہاؤس 22 کروڑ لوگوں کا نمائندہ ہے، کچھ لوگ پاکستان کی پارلیمان کو بکرا منڈی بنانا چاہتے ہیں۔" 
اچکزئی صاحب کے اپنے خیالات ہیں کوئی پارلیمنٹ کو بکرا منڈی بنائے یا اراکین پارلیمنٹ اسے مچھلی منڈی بنائیں جب تک سیاسی قیادت اپنے مسائل حل نہیں کرے گی اس وقت تک ہر طرف سے مداخلت ہوتی رہے گی۔ اچکزئی صاحب کو اسٹیبلشمنٹ تو بری لگی لیکن جو کچھ منتخب اراکین قومی اسمبلی میں ان کے سامنے کرتے رہے اس حوالے سے بھی چند الفاظ بولتے تو یہ احساس ضرور ہوتا کہ وہ غیر جانبدارانہ رائے رکھتے ہیں لیکن جب وہ پارلیمنٹ میں موجود افراد کی حرکتوں اور طرز عمل پر آنکھیں اور زبان بند رکھیں اور دوسروں پر انگلیاں اٹھائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ برسوں کی مسلسل جمہوریت سے اگر کسی نے کچھ نہیں سیکھا تو وہ بالخصوص سیاسی قیادت ہے۔ قومی اسمبلی میں جانے والے تمام افراد خود بتائیں کہ کیا اس شور شرابے سے، ان نعروں اور سطحی حرکتوں سے ملکی مسائل حل ہو سکتے ہیں، یا یہ ایک تعمیری پارلیمنٹ ہے۔ کیا پچیس کروڑ لوگوں کے منتخب نمائندے ایسے ہوتے ہیں۔ ذرا سوچئے، قوم کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے نعروں کی نہیں حکمت کی ضرورت ہے اور اس کی ملک میں شدید قلت ہے۔ کاش کہ نعروں کی جگہ تعمیری گفتگو اور قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا سلسلہ شروع ہو کاش ایسا ہو سکے، کاش!!!!
آخر میں خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا کلام
جگہ   جی  لگانے  کی   دنیا   نہیں  ہے
یہ  عبرت  کی  جا  ہے  تماشہ  نہیں  ہے
جہاں میں ہیں عبرت کے  ہر  سْو  نمونے
مگر  تجھ  کو  اندھا  کیا  رنگ و  بْو  نے
کبھی  غور  سے  بھی  دیکھا  ہے  تو  نے
جو  معمور  تھے  وہ محل اب ہیں سْونے
جگہ   جی   لگانے   کی  دنیا  نہیں  ہے
یہ   عبرت  کی  جا  ہے  تماشہ نہیں ہے
ملے  خاک  میں  اہلِ شاں  کیسے کیسے
مکیں  ہو  گئے  لا   مکاں   کیسے  کیسے
ہؤے   ناموَر   بے   نشاں   کیسے  کیسے
زمیں   کھا   گئی  آسماں  کیسے  کیسے
جگہ   جی   لگانے   کی   دنیا  نہیں  ہے
یہ  عبرت  کی  جا  ہے  تماشہ  نہیں  ہے
اجل  نے  نہ  کسریٰ  ہی  چھوڑا  نہ  دارا
اسی  سے   سکندر  سا   فاتح   بھی  ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیاکیا حسرت سدھارا
پڑا  رہ   گیا   سب   یہیں   ٹھاٹ   سارا
جگہ  جی  لگانے   کی   دنیا   نہیں   ہے
یہ  عبرت  کی  جا  ہے  تماشہ  نہیں  ہے
تجھے  پہلے  بچپن  میں برسوں کھلایا
جوانی  نے  پھر  تجھ  کو  مجنوں بنایا
بڑھاپے  نے  پھر  آ  کے  کیا   کیا   ستایا
اجل  تیرا  کر  دے   گی   بالکل   صفایا
جگہ  جی   لگانے   کی   دنیا   نہیں  ہے
یہ  عبرت  کی  جا  ہے  تماشہ  نہیں  ہے
یہی تجھ کو دھْن ہے رہْوں سب سے بالا
ہو   زینت    نرالی    ہو    فیشن    نرالا
جیا  کرتا  ہے  کیا   یونہی   مرنے   والا
تجھے  حسنِ  ظاہر  نے دھوکے میں ڈالا
کوئی  تیری  غفلت  کی  ہے  انتہا  بھی
جنون  چھوڑ  کر  اب  ہوش  میں آ بھی
جگہ  جی   لگانے   کی   دنیا   نہیں  ہے
یہ   عبرت   کی  جا  ہے  تماشہ  نہیں ہے

مزیدخبریں