”بگ گیم“

May 02, 2010

سفیر یاؤ جنگ
خالد ایچ لودھی ۔۔۔
پاکستان کی تاریخ میں قائد ملت خان لیاقت علی خان شہید کا قتل‘ ذوالفقار علی بھٹو شہید کا عدالتی قتل‘ جنرل ضیاءالحق مرحوم کی فضائی حادثے میں پراسرار ہلاکت‘ شاہ نواز بھٹو مرحوم کی فرانس میںپراسرار ہلاکت اور پھر میر مرتضیٰ بھٹو مرحوم کا قتل‘ یہ وہ واقعات ہیں کہ ان کی کسی نہ کسی حوالے سے تحقیقات تو ضرور ہوئی ہیں مگر آج تک ان کا اصل ”کھرا“ پکڑا ہی نہیں گیا اور نہ ہی کبھی باضابطہ طور پر المناک واقعات کے ضمن میںقوم کو حقائق سے آگاہ کیا گیا ہے یا ان واقعات کی کوئی حتمی رپورٹ بھی منظرعام پر لائی گئی ہے۔ محض رسمی طور پر تحقیقات ہوتی رہی ہیں اور وہ پھر سردخانے کی نظر ہو کر داخل دفتر ہوتی رہی ہیں۔جنرل ضیاءالحق مرحوم کے صاحبزادے اعجاز الحق خود متعدد بار حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود اپنے والد کے المناک واقعہ کی تحقیقات نہ کروا سکے یا بعض طاقتوں نے خفیہ طور پر اس ضمن میں کوئی کارروائی کرنے ہی نہ دی۔ برطانوی صحافی Sanday Gall سینڈی گال اس المناک سانحہ کی دستاویزی فلم پر اب تک کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ آج تک اپنی پراسراریت برقرار رکھے ہوئے ہے یعنی پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم کی موت جو کہ بعض حلقوں میں پراسراریت کا عنصر رکھتی ہے حتیٰ کہ جنرل مرحوم کی اہلیہ کی اس موت کے بارے میں ایک ایف آئی آر آج بھی سول لائن تھانہ راولپنڈی میں موجود ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت دو مرتبہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی قیادت میں قائم رہی یہ حکومت بھی ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا ری ٹرائل نہ کروا سکی حتیٰ کہ خود میر مرتضیٰ بھٹو مرحوم کی ہلاکت بھی ابھی تک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ شاہ نواز بھٹو مرحوم کا پراسرار قتل جو فرانس میں ہوا وہ بھی ابھی تک معمہ ہے کہ اس سلسلے میں کون سے خفیہ ہاتھ ملوث تھے موجودہ حکومت ذوالفقار علی بھٹو شہید کے عدالتی قتل کے ری ٹرائل کی بات تو کرتی ہے مگر یہ ٹرائل کون کروائے گا کب کروائے گا؟ اس کا کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔اب اسی طرح محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شہادت کا واقعہ بھی ابھی تک بنیادی تحقیقات ہی کے مراحل سے گزر رہا ہے اور وہ بھی اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں حکومتی ذرائع کے مطابق بڑی تیزی سے اپنی تحقیقاتی کارروائی کے مراحل طے کر رہا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کے مطابق سو فیصد ملزمان نہ صرف بے نقاب ہوں گے بلکہ ان کو قرار واقعی سزا بھی دلوائی جائے گی۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کے بقول جو کہ وہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو جانتے ہیں لیکن باضابطہ طور پر کوئی خاص گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی آزاد عدلیہ‘ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں بین الاقوامی شہرت کی حامل پاکستان کی ہردلعزیز لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے المناک سانحہ کے سلسلے میں اپنے طور پر کوئی کارروائی کرنے کی مجاز نہیں ہیں کیا اس دھرتی کا قانون سویا ہوا ہے یا ہماری پوری اسٹیبلشمنٹ اور افواج پاکستان اس ملک کی دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بیٹی کے قاتلوں کو معاف کر دینا چاہتی ہے یا پھر وہ اس قتل کو جان بوجھ کر اندھے قتل کی طرح بھول جانا چاہتی ہیں۔جس ڈیل کے تحت اقتدار پاکستان پیپلزپارٹی کے حوالے کیا گیا تھا اس کے تحت جنرل پرویز مشرف کو ایوان صدر سے گارڈ آف آنرز دے کر رخصت کیا گیا اور اسی ڈیل کا ایک اور بھی اہم حصہ ہے وہ یہ کہ آصف علی زرداری کے خلاف کسی بھی قیمت پر سوئس کیسز کھل ہی نہیں سکتے کیونکہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کے اٹارنی جنرل نے جو درخواست سوئٹزر لینڈ کی حکومت کو مملکت پاکستان کی جانب سے دی تھی اس کی روح کے مطابق بڑے واضح طور پر مملکت پاکستان نے حکومت سوئٹزر لینڈ کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے شواہد ثابت ہی نہیں ہوئے لہٰذا یہ مقدمہ خارج کیا جائے اسی بناءپر وہاں کی عدالت نے بھی آصف علی زرداری کو کرپشن میں ملوث نہ پاتے ہوئے کارروائی ختم کر دی تھی ۔بین الاقوامی قوانین کے تحت دنیا کے کسی بھی سربراہ مملکت کے خلاف اس وقت تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی جب تک کہ وہ خود سربراہ مملکت ہیں کیونکہ ان کو سربراہ مملکت ہوتے ہوئے مکمل استحقاق حاصل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں کی حکومت خود ان کا استحقاق ختم کر دے اور پھر کسی غیر ملک کی عدالت کو مقدمہ دائر کرنے اور کارروائی کرنے کی مملکت کی طرف سے باضابطہ درخواست دے۔ جو کہ ”پاکستان کھپے“ اور ”جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے“ کے نعرے کو لے کر ”بگ گیم“ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اسی ”بگ گیم“ کا ایک حصہ اٹھارویں ترمیم کے ثمرات میں میاں برادران کو فری ہینڈ دینا بھی ہے جس کے تحت تیسری مرتبہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بننے کی شرط ختم کردی گئی ہے۔ اسی بنا پر فرینڈلی اپوزیشن نے اپنا پورا پورا حق ادا کیا ہے۔ یہ امر بھی بڑا دلچسپ ہے کہ بعض اوقات فرینڈلی اپوزیشن ہی کے اندر چوھدری نثار علی خان‘ خواجہ سعد رفیق اور جاوید ہاشمی نے سولو فلائیٹ کرنے کی کوششیں بھی کیں مگر پارٹی کی وابستگی آڑے آتی رہی ہے۔ اب حقائق جو بھی ہوں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قاتلوں تک رسائی ہو نہ ہو مگر اب پنجاب میں متحدہ قومی موومنٹ نے اپنا پہلا پڑاﺅ بڑی کامیابی سے ڈال لیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ عوام کے نچلے طبقے کی حقیقی نمائندگی کا حق ادا کر رہی ہے۔
مزیدخبریں