ہمارے وزیر اعظم بہت نفیس انسان ہیں ، ان کی شرافت اور نفا ست ہی کی بدولت آصف زرداری نے ان پر اعتماد کیا اور مخدوم امین فہیم کی بجائے انہیں وزیر اعظم بنا دیا ، ویسے تو مخدوم امین فہیم بھی شریف النفس آدمی ہیں مگر یوسف رضا گےلانی کی کیا بات ہے۔آصف زرداری کو ایسے ہی شرفاء کی ضرورت ہے جو ان کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہ لگنے دیں ۔۔۔شروع شروع میں تو یوسف رضا گےلانی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ وزیر اعظم بن چکے ہیں ہر وقت حےران حےران اور کھوئے کھوئے رہتے تھے لیکن اب چونکہ دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور پھر اٹھارہویں ترمیم کے بعد ان کے پاس بہت اختےارات بھی آ چکے ہیں سو اب ان کی صلاحتےں مزید اجاگر ہو رہی ہیں ۔اب آپ محفلوں میں ہنسی مذاق بھی کر لیتے ہیں ، چٹکلے بھی چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔ یا ر لوگ ، کبھی ان کے چٹکلوں کو نہاےت سنجیدگی سے لینا شروع ہو جاتے ہیں ۔ حالانکہ ایسے ہلکے پھلکے جملوں میں ان کی سوچ کبھی منفی نہیں ہوتی ۔ انہیں صرف مذاق کی عادت ہے ۔۔۔پچھلے چند ماہ میں ان کے کئی فیصلوں پر عدالت کو ”حرکت “ میں آ نا پڑا ´۔۔۔ حال ہی میں ۴۵ بیوروکریٹ کی ترقیوں پر عدالت کا فیصلہ آ گےا ہے ۔ بیو رو کریٹس ” غرےب“ اپنی ترقی پر ابھی کھل کر خوش بھی نہ ہو سکے تھے کہ عدالت نے انہیں میرٹ کے خلاف قراد دے دیا ہے ۔ حالانکہ وزیراعظم نے اپنے صوابدید ی اختےارات استعمال کرتے ہوئے ۴۵ افسروں کو اگلے گریڈ میں ترقیاں دے ڈالی تھےں ۔۔۔ہمارے ایک کرم فرما بھی ہمارے خیال سے اتفاق کرتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ وزیر اعظم یونہی کبھی چھےڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں ، عدالت سے ان کا مذاق تو نہیں مگر لگتا ہے بعض فیصلے وہ محض ” چھےڑ چھانی “ کے لیے کر جاتے ہیں اور جب ان فیصلوں کے خلاف رد عمل سامنے آ جاتا ہے چاہے وہ عدلیہ ہی کا کیوں نہ ہو تو فوراً آپ سنجیدہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ عدلیہ کا بے حد احترام کرتے ہیں ۔ حال ہی میں افسران کی ترقیا ں جب تنزلی کا شکا ر ہو چکی ہیں تو وزیر اعظم نے کہا ہے کہ عدلیہ کے فیصلے پر مکمل عمل کیا جائے گا ۔۔۔ موجودہ حکومت پچھلے دو برس سے ایسے کئی فیصلے کر چکی ہے۔جن پر بعد ازاں پسپائی اختےار کرنی پڑی ، وزیر اعظم صاحب کو تو مبینہ طور پر ”چھےڑ چھاڑ“ کی عادت سہی مگر آصف زرداری ہی انہیں مشورہ دے دیا کریں کہ تمام فیصلے نہایت سوچ سمجھ کر کیے جائیں ۔۔۔مگر شاید آصف زرداری جانتے ہیں کہ وزیر اعظم نے اپنے کتنے ہی مشیر رکھے ہو ئے ہیں ۔ا یسے مشیر آ خر کس مرض کی دوا ہیں ۔ ایسے مشیر حضرات کو ” مخلصانہ “ مشورے دینے چاہیں تا کہ حکومت کی سبکی نہ ہو ۔ آخر ایسے فیصلے کیوں کیے جائیں جنہیں کچھ عرصے بعد ہی واپس لینا پڑے ۔۔۔ اور بعض اوقات ” معذرت خواہانہ “ رویہ اختےار کر نا پڑے ۔۔۔حکومت عدلیہ کا احترا م کر تی ہے تو پھر اسے پہلے ہر شعبے میں میرٹ پر عمل درآمد کرنا چاہیے ۔ جعلی ڈگرےوں والے افراد کو مشیر لگانا کہاں کا میرٹ ہے ۔ جس شخص کو عدالت جعلساز ثابت کر دے ۔۔۔ جس نے عوام کے جذبات کا مذاق اڑایا ہو ۔پا رٹی آئین کی خلاف ورزی کی ، پارٹی کو دھوکے میں رکھ کر غلط حلف دیا ہو ، ایسے لوگوں کو دو سال کی مراعات اور رقوم واپس لینے اور انہیں سزا دلوانے کی بجائے ، آپ اپنا مشیر بنا لیتے ہیں ۔ یہ کیسا انصاف ہے ؟؟ نجانے ہر سیاست دان یہ کیوں چاہتا ہے کہ اسکے اپنے بھائی ، بیٹے اور داماد بھی ان کے ساتھ اسمبلی میں بےٹھے دکھائی دیں ۔ ایک خاندان سے کیا ایک فرد ہی نمائندگی کے لیے کافی نہیں ہوتا ؟ ہمیں تو حےرت ہو تی ہے ان کے اثاثہ جات دیکھ کر وہ اثاثہ جات جن کا الیکشن سے قبل اعلان کیا جاتا ہے ۔۔۔کئی بیچاروں کے پاس ذاتی گاڑی تک نہیں ہے ۔۔کیا قوم ایسے سفید جھوٹ پر اعتماد کرے گی ؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ مدتوں اقتدار میں رہنے والے سےاسی قائدین اور وزراءکے پاس گاڑی تک نہ ہو ۔۔؟ اس مذاق پر لیڈروں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔