دہشت گردی کے خلاف امرےکہ کی عالمی جنگ کم از کم سہہ فرےقی جنگ تو ہے جس مےں امرےکہ، افغانستان اور نہ چاہتے ہوئے پاکستان بھی شامل ہے ۔ امرےکہ نے اپنی عالمی حےثےت منواتے ہوئے نےٹو ممالک کی کچھ فوج کوبھی شامل کررکھا ہے (جن کا کچھ جانی نقصان بھی اس جنگ مےں ہوا) اصل فرےق تےن ہی ہےں۔ امرےکہ کو اس جنگ کی بھاری مالی قےمت ادا کرنی پڑی جس کی وجہ سے اس کی معےشت بہت دباﺅ کا شکار ہے۔ افغانستان کی اےنٹ سے اےنٹ بج گئی۔ پاکستان بھی 35 ہزار شہرےوں ، 3 ہزار سے زےادہ فوجےوں کی قربانی دے کر اور اپنی معےشت کو 60/70 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا کے تباہی کے کنارے آ کھڑا ہوا ہے۔ جنگ مےں امرےکہ کی طرف سے پاکستان کی قربانےوں کو تسلےم بھی کےا گےا۔پاکستان کو کبھی سٹرےٹےجک پارٹنر ، کبھی سپےشل نان نےٹو الائی کے خطاب سے نوازا گےا، بار بار اس بات کی تکرار کی گئی کہ سووےت روس کی شکست کے بعد امرےکہ نے خطہ کو تنہا چھوڑ کر غلطی کی تھی ، اس مرتبہ وہ اےسا نہےں کرے گا۔ اس نے سبق حاصل کر لےا ہے۔ چکنی چپڑی باتوں پر ہم سادہ لوح پاکستانی ےقےن نہ کرتے ہوئے بھی جنگ مےں شرےک رہے۔ ہمارا خون بہتا رہا، معےشت تباہ ہوتی رہی، لےکن حالات کا جبر اےسا تھا کہ ہم جنھوں نے ےہ جنگ شروع نہ کی تھی جنگ مےں برابرکے شرےک رہے اورسب سے زےادہ قربانےاںبرداشت کےں۔ سہہ فرےقی جنگ مےں چاہئے تو ےہ تھا کہ ےہ تےنوں ملک (پاکستان۔ افغانستان۔امرےکہ) اےک دوسرے پر مکمل اعتماد کرتے اور باہمی مشاورت سے جنگ لڑنے اور اسے ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرتے، اےسا ہوا نہےں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تےنوں ملکوں مےں باہمی اعتماد مےں اضافے کی بجائے فقدان نے جگہ پائی ۔ دراصل جنگ سے مطلوب مقاصد اور مفادات الگ الگ تھے، اگر کسی مرحلہ پر ان مقاصد مےںےکجہتی پےدا کر لی جاتی تو جنگ لڑنا آسان ہوتا اور اس کا آبرو مندانہ اختتام بھی۔ چونکہ اےسا نہےں ہوا، اب جنگ لڑنا اور اس کا آبرو مندانہ اختتام دونوں بہت مشکل نظر آنے لگے ہےں۔عسکری تجزےہ نگار اس بات پر متفق ہےں کہ امرےکہ ےا نےٹو کےلئے افغانستان کی اس جنگ مےں فتح تو کجا ہزےمت آمےز شکست سے بچنا بھی ممکن نظر نہےں آتا۔رےمنڈ ڈےوس کے واقعہ نے پاکستان کو سوچنے پر مجبور کر دےا کہ ان سےنکڑوں سی۔آئی۔اے آپرےٹرز کی تعداد اور حرکات سے متعلق معلومات حاصل کی جائےں جو بلا روک ٹوک ہمارے ملک مےں خدا جانے کےا کرتے پھرٹے ہےں۔ دوسرے سپےشل فورسز کے ان افراد کو ملک سے نکالا جائے جو بظاہر آئے تو کسی اور وجہ سے تھے لےکن ان کی دلچسپےوں کا مرکز ہمارے نےوکلیئر اثاثے تھے۔پاکستان نے مطالبہ کر دےا کہ سی۔آئی۔اے آپرےٹرز کی کل تعداد اور ان کی ذمہ دارےوں سے پاکستان کو آگاہ کےا جائے۔ نےز سپےشل فورسز کے افراد کو پاکستان سے نکال لےا جائے۔ ےہ درست ہے کہ پاک امرےکہ تعلقات کو جو پہلے ہی بد اعتمادی کا شکار تھے رےمنڈ ڈےوس کے قضےہ نے مزےد نقصان پہنچاےا۔دونوں ملکوں کے تعلقات بالخصوص I.S.I اور C.I.A کے درمےان بگڑتے ہوئے حالات کو سہارا دےنے کے لئےI.S.I کے سربراہ جنرل پاشا نے حال ہی مےں امرےکہ کا اےک نہاےت مختصر دورہ کےا جہاں وہ C.I.A کے سربراہ سے ملے۔ ہر چند کہ ملاقات خوشگوار ماحول مےں ہوئی فرےقےن اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ ےوں کہئےے کہ ےہ ملاقات بارآور ثابت نہ ہوئی۔پاکستان ہی نہےں افغانستان سے بھی امرےکی تعلقات مےں ابتری آئی۔ اےک تو صدر حامد کارزئی امرےکی قےادت کو صاف صاف سنا نے کی عادی ہےں ۔ صاف گوئی امرےکہ کو پسند نہےں۔ پھر افغانستان مےں شہرےوں کی ہلاکتےں جو امرےکی اور نےٹو افواج کے ہاتھوں ہوئی ہےںصدر کارزئی پر زبردست دباﺅکا باعث بنےں۔ جلتی پر تےل کا کام اس خبر نے دےا کہ آنےوالے انتخابات مےں امرےکی انتظامےہ صدر کارزئی کے بجائے ان کے بھائی قےوم کارزئی کی حماےت کرنا چاہتی ہے۔ تےنوں اتحادی ملکوں کے درمےان بد اعتمادی نئی حدوں کو چھونے لگی ۔پاکستان نے فےصلہ کےا کہ افغانستان سے تعلقات بہتر کئے جائےں اور اگر کوئی غلط فہمی ےا بد گمانی دونوں ملکوں کے درمےان ہے تو اسے دور کےا جائے تاکہ علاقائی مسائل کا علاقائی حل تلاش کےا جائے۔
وزےراعظم گےلانی کی سرکردگی مےں کابےنہ کے وزراء، عسکری قےادت بشمول I.S.Iکے سربراہ جنرل پاشا (جو اس قسم کے دوروں مےں بالعموم شرکت نہےں کرتے) اےک ہمہ مقتدر وفد نے کابل کا دورہ کےا۔ دورہ کا مقصد پڑوسی ملکوں کے درمےان عدم اعتمادی کی فضا کو دور کرنا اور اےک اےسے ماحول کی تشکےل تھا جس مےں موجودہ جنگ سے نجات اور امن کی طرف پےش رفت ممکن ہو سکے۔ وزےراعظم گےلانی نے صدر کارزئی کو ےقےن دلاےا کہ پاکستان اےک پر امن، خوشحال، مستحکم افغانستان مےں دلچسپی رکھتا ہے۔Strategic Depth جےسے فضول نظرےات سے اس کا کوئی تعلق نہےں۔ عسکری قےادت نے اپنے افغان ہم منصبوں سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی اور فرےقےن نے فےصلہ کےا شدت پسندوں سے مذاکرات کےلئے راستے تلاش کئے جائےں ۔ اس ضمن مےں سب سے اہم پےش رفت ےہ ہوئی کہ دونوں ملکوں نے پاک افغان کمےشن کے قےام پر اتفاق کےا جس مےں لےڈ رول افغانستان کا ہوگا۔ پاکستان صرف سہولت فراہم کرنے کا رول ادا کرےگا۔ پاک افغان تعلقات مےں ےہ گرم جوشی بالخصوص پاک افغانستان کمےشن کا قےام امرےکہ کے لئے نئی بات تھی۔ اس پےش رفت کو امرےکی انتظامےہ نے تعجب اور حےرت کی نظر سے دےکھا ہے۔ ان لوگوں کی سمجھ مےں ےہ بات نہےں آ رہی کہ اتنا بڑا واقعہ امرےکہ کی اطلاع اور اجازت کے بغےر ممکن کےسے ہو گےا۔ دراصل دونوں ملکوں کی سول اور عسکری قےادت کو اندازہ ہوچکا تھا کہ ہزاروں مےل سے آئی ہوئی سپاہ کے مفادات پاکستان اور افغانستان کے مفادات سے ہم آہنگ نہےں ۔ خطے کے ملکوں کو تو ہمےشہ ساتھ رہنا ہے۔ باہر کے لوگ خواہ کتنے ہی طاقتور کےوں نہ ہوں اےک دن رخصت ہو جاتے ہےں۔ پھر امرےکی صدر نے تو افغانستان سے امرےکی سپاہ کے انخلاءکی تارےخ کے آغاز کا اعلان بھی کر رکھا ہے (14 جولائی 2011)۔ چنانچہ افغانستان اور پاکستان نے فےصلہ کےا ہے کہ باہمی مشاورت اور مفاہمت کے جذبہ سے علاقائی مسائل کا حل تلاش کرےں گے۔پاک وفد کے دورہ افغانستان کے بعد سفارتی سرگرمےوں مےں بہت تےزی آگئی ۔ (جوں جوں 14 جولائی قرےب آتا جائے گا ان سرگرمےوں مےں اضافہ ہو گا)۔ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمےان عسکری اور سفارتی قےادت کے دورے ہونے لگے ۔ امرےکی سپاہ کے متعدد اعلیٰ عہدے داروں نے اسلام آباد کا دورہ کےا اور پاک فوج کے سربراہ جنرل کےانی اور دےگر اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقاتےں کےں ان مےں سےنٹ کام (Cent Com.) کے کمانڈر جنرل جےمز مےٹس (James Mattis)، جوائنٹ چےف آف آرمی سٹاف چےئر مےن اےڈمرل مائیکل مولن، امرےکی چےف آف سٹاف جنرل ڈےمپسی (Dampsey) اور اےساف کے کمانڈر پےٹرےاس وغےرہ شامل ہےں۔ پچھلے ہفتہ پاکستان کے سےکرٹری خارجہ واشنگٹن گئے تاکہ پاک امرےکہ سٹرےٹجک مذاکرات کی اگلی نشست کا اےجنڈہ طے کےا جا سکے۔ وہاں ان کی ملاقات اپنے ہم منصبوں کے علاوہ افغانستان اور پاکستان مےں امرےکہ کے خاص نمائندہ مارک گراس مےن سے بھی ہوئی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ خطہ کے اپنے اگلے دورہ مےںسہہ فرےقی (Re conciliation) کے مختلف آپشنز پر توجہ دےںگے۔ جب ان سے مصالحتی پروسےس کی وضاحت طلب کی گئی تو دونوں نے کہا کہ پروسےس افغان owned & lead ہو گا اور امرےکہ اور پاکستان معاون اور امداد فراہم کرنے کا رول ادا کرےں گے۔ہمارے سےکرٹری دفاع بھی عنقرےب واشنگٹن جانے والے ہےں۔امرےکی انتظامےہ کا اےک حصہ اس بات کے حق مےں ہے کہ افغانستان کے معاملات مےں بھارت کو اےک مستقل کردار دےا جائے۔ اس رجحان سے پاکستان مےں قدرتی طور پر تشوےش پےدا ہوتی ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان مےں بھارت اثر رسوخ مےں اضافہ بلوچستان انسرجنسی مےں اضافہ کی اےک بڑی وجہ ہے اور افغان معاملات مےں بھارت کو کوئی اضافی رول دےا گےا تو اس سے پاکستان کی مشکلات مےں اضافہ ہو گا۔ پاک امرےکہ تعلقات ہمےشہ گرم جوشی اور سرد مہری کے بےن بےن چلتے رہے ہےں لےکن اس مرتبہ ان مےں بگاڑ کی کچھ اور ہی صورت نظر آتی ہے....
بارہا دےکھی ہےں ان کی رنجشےں
پر کچھ اب کے سر گرانی اور ہے
امرےکہ کی اس سرگرانی کا سبب سمجھ مےں بھی آتا ہے۔دس سال سے جاری اس جنگ مےں کامےابی کی کوئی صورت نظر نہےں آتی۔جنگےں بالعموم گفت و شنےد اور مذاکرات پر ختم ہوتی ہےں۔امرےکہ بہت بڑی قوت ہے۔ اس کے مختلف شعبے جو جنگ مےں مصروف ہےں اپنی اپنی رائے رکھتے ہےں۔ پےنٹا گون، سٹےٹ ڈےپارٹمنٹ، وہائٹ ہاﺅس، سی۔آئی۔اے وغےرہ۔ ان مےں ہم آہنگی پےدا نہےں ہو سکی اور ےہی امرےکہ کے راستہ کا سب سے بڑا پتھر ہے۔امرےکہ مےں اگلا سال انتخاب کا سال ہوگا۔ اس سال صدر اوبامہ امرےکی ووٹرز کو امن نام کی کوئی چےز دکھانا چاہےں گے۔مگر کےا ےہ ممکن ہے؟ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ہمےں پھونک پھونک کر اور سوچ سمجھ کے قدم اٹھانا چاہےے۔ تعلقات مےں بگاڑ پےدا کر لےنا تو آسان بات ہے مگر کےا اےسا کرنا ہمارے قومی مفاد مےں ہو گا! امرےکہ کے ڈرون حملوں سے ملک مےں معصوم لوگوں کی بھی بہت ہلاکتےں ہوئی ہےں جس کی وجہ سے ہماری پارلےمان ، حکومت ، عسکری قےادت سب ہی سخت ناراض ہےں۔ امرےکہ سے احتجاج ہوئے، ڈرون حملے بند کرنے کے مطالبات ہوئے، دھرنے دئےے گئے لےکن ےہ حملے ابھی تک رکے نہےں ہےں۔ جنرل پےٹرےاس کے سی۔آئی۔اے کا سربراہ مقرر ہونے سے اندےشہ ہے ہمارے تعلقات اور ڈرون حملوں مےں مزےد بگاڑ پےدا ہو گا۔ امرےکہ کو ےہ زعم کہ امرےکی امداد کے بغےر پاکستان کا گزارہ ممکن نہےں۔ لےکن امرےکہ کو بھی ےاد رکھنا چاہےے کہ افغانستان مےں امرےکہ اور نےٹو افواج کو تمام رسد پاکستان کے راستہ ہی جاتی ہے، جس کے بغےر جنگ ممکن نہےں۔امرےکہ ا ور پاکستان دونوںطرف بہت جوش نظر آ رہا ہے لےکن جوش کے ساتھ ہوش کا قائم رہنا دونوں ملکوں کی ضرورت ہے۔
وزےراعظم گےلانی کی سرکردگی مےں کابےنہ کے وزراء، عسکری قےادت بشمول I.S.Iکے سربراہ جنرل پاشا (جو اس قسم کے دوروں مےں بالعموم شرکت نہےں کرتے) اےک ہمہ مقتدر وفد نے کابل کا دورہ کےا۔ دورہ کا مقصد پڑوسی ملکوں کے درمےان عدم اعتمادی کی فضا کو دور کرنا اور اےک اےسے ماحول کی تشکےل تھا جس مےں موجودہ جنگ سے نجات اور امن کی طرف پےش رفت ممکن ہو سکے۔ وزےراعظم گےلانی نے صدر کارزئی کو ےقےن دلاےا کہ پاکستان اےک پر امن، خوشحال، مستحکم افغانستان مےں دلچسپی رکھتا ہے۔Strategic Depth جےسے فضول نظرےات سے اس کا کوئی تعلق نہےں۔ عسکری قےادت نے اپنے افغان ہم منصبوں سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی اور فرےقےن نے فےصلہ کےا شدت پسندوں سے مذاکرات کےلئے راستے تلاش کئے جائےں ۔ اس ضمن مےں سب سے اہم پےش رفت ےہ ہوئی کہ دونوں ملکوں نے پاک افغان کمےشن کے قےام پر اتفاق کےا جس مےں لےڈ رول افغانستان کا ہوگا۔ پاکستان صرف سہولت فراہم کرنے کا رول ادا کرےگا۔ پاک افغان تعلقات مےں ےہ گرم جوشی بالخصوص پاک افغانستان کمےشن کا قےام امرےکہ کے لئے نئی بات تھی۔ اس پےش رفت کو امرےکی انتظامےہ نے تعجب اور حےرت کی نظر سے دےکھا ہے۔ ان لوگوں کی سمجھ مےں ےہ بات نہےں آ رہی کہ اتنا بڑا واقعہ امرےکہ کی اطلاع اور اجازت کے بغےر ممکن کےسے ہو گےا۔ دراصل دونوں ملکوں کی سول اور عسکری قےادت کو اندازہ ہوچکا تھا کہ ہزاروں مےل سے آئی ہوئی سپاہ کے مفادات پاکستان اور افغانستان کے مفادات سے ہم آہنگ نہےں ۔ خطے کے ملکوں کو تو ہمےشہ ساتھ رہنا ہے۔ باہر کے لوگ خواہ کتنے ہی طاقتور کےوں نہ ہوں اےک دن رخصت ہو جاتے ہےں۔ پھر امرےکی صدر نے تو افغانستان سے امرےکی سپاہ کے انخلاءکی تارےخ کے آغاز کا اعلان بھی کر رکھا ہے (14 جولائی 2011)۔ چنانچہ افغانستان اور پاکستان نے فےصلہ کےا ہے کہ باہمی مشاورت اور مفاہمت کے جذبہ سے علاقائی مسائل کا حل تلاش کرےں گے۔پاک وفد کے دورہ افغانستان کے بعد سفارتی سرگرمےوں مےں بہت تےزی آگئی ۔ (جوں جوں 14 جولائی قرےب آتا جائے گا ان سرگرمےوں مےں اضافہ ہو گا)۔ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمےان عسکری اور سفارتی قےادت کے دورے ہونے لگے ۔ امرےکی سپاہ کے متعدد اعلیٰ عہدے داروں نے اسلام آباد کا دورہ کےا اور پاک فوج کے سربراہ جنرل کےانی اور دےگر اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقاتےں کےں ان مےں سےنٹ کام (Cent Com.) کے کمانڈر جنرل جےمز مےٹس (James Mattis)، جوائنٹ چےف آف آرمی سٹاف چےئر مےن اےڈمرل مائیکل مولن، امرےکی چےف آف سٹاف جنرل ڈےمپسی (Dampsey) اور اےساف کے کمانڈر پےٹرےاس وغےرہ شامل ہےں۔ پچھلے ہفتہ پاکستان کے سےکرٹری خارجہ واشنگٹن گئے تاکہ پاک امرےکہ سٹرےٹجک مذاکرات کی اگلی نشست کا اےجنڈہ طے کےا جا سکے۔ وہاں ان کی ملاقات اپنے ہم منصبوں کے علاوہ افغانستان اور پاکستان مےں امرےکہ کے خاص نمائندہ مارک گراس مےن سے بھی ہوئی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ خطہ کے اپنے اگلے دورہ مےںسہہ فرےقی (Re conciliation) کے مختلف آپشنز پر توجہ دےںگے۔ جب ان سے مصالحتی پروسےس کی وضاحت طلب کی گئی تو دونوں نے کہا کہ پروسےس افغان owned & lead ہو گا اور امرےکہ اور پاکستان معاون اور امداد فراہم کرنے کا رول ادا کرےں گے۔ہمارے سےکرٹری دفاع بھی عنقرےب واشنگٹن جانے والے ہےں۔امرےکی انتظامےہ کا اےک حصہ اس بات کے حق مےں ہے کہ افغانستان کے معاملات مےں بھارت کو اےک مستقل کردار دےا جائے۔ اس رجحان سے پاکستان مےں قدرتی طور پر تشوےش پےدا ہوتی ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان مےں بھارت اثر رسوخ مےں اضافہ بلوچستان انسرجنسی مےں اضافہ کی اےک بڑی وجہ ہے اور افغان معاملات مےں بھارت کو کوئی اضافی رول دےا گےا تو اس سے پاکستان کی مشکلات مےں اضافہ ہو گا۔ پاک امرےکہ تعلقات ہمےشہ گرم جوشی اور سرد مہری کے بےن بےن چلتے رہے ہےں لےکن اس مرتبہ ان مےں بگاڑ کی کچھ اور ہی صورت نظر آتی ہے....
بارہا دےکھی ہےں ان کی رنجشےں
پر کچھ اب کے سر گرانی اور ہے
امرےکہ کی اس سرگرانی کا سبب سمجھ مےں بھی آتا ہے۔دس سال سے جاری اس جنگ مےں کامےابی کی کوئی صورت نظر نہےں آتی۔جنگےں بالعموم گفت و شنےد اور مذاکرات پر ختم ہوتی ہےں۔امرےکہ بہت بڑی قوت ہے۔ اس کے مختلف شعبے جو جنگ مےں مصروف ہےں اپنی اپنی رائے رکھتے ہےں۔ پےنٹا گون، سٹےٹ ڈےپارٹمنٹ، وہائٹ ہاﺅس، سی۔آئی۔اے وغےرہ۔ ان مےں ہم آہنگی پےدا نہےں ہو سکی اور ےہی امرےکہ کے راستہ کا سب سے بڑا پتھر ہے۔امرےکہ مےں اگلا سال انتخاب کا سال ہوگا۔ اس سال صدر اوبامہ امرےکی ووٹرز کو امن نام کی کوئی چےز دکھانا چاہےں گے۔مگر کےا ےہ ممکن ہے؟ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ہمےں پھونک پھونک کر اور سوچ سمجھ کے قدم اٹھانا چاہےے۔ تعلقات مےں بگاڑ پےدا کر لےنا تو آسان بات ہے مگر کےا اےسا کرنا ہمارے قومی مفاد مےں ہو گا! امرےکہ کے ڈرون حملوں سے ملک مےں معصوم لوگوں کی بھی بہت ہلاکتےں ہوئی ہےں جس کی وجہ سے ہماری پارلےمان ، حکومت ، عسکری قےادت سب ہی سخت ناراض ہےں۔ امرےکہ سے احتجاج ہوئے، ڈرون حملے بند کرنے کے مطالبات ہوئے، دھرنے دئےے گئے لےکن ےہ حملے ابھی تک رکے نہےں ہےں۔ جنرل پےٹرےاس کے سی۔آئی۔اے کا سربراہ مقرر ہونے سے اندےشہ ہے ہمارے تعلقات اور ڈرون حملوں مےں مزےد بگاڑ پےدا ہو گا۔ امرےکہ کو ےہ زعم کہ امرےکی امداد کے بغےر پاکستان کا گزارہ ممکن نہےں۔ لےکن امرےکہ کو بھی ےاد رکھنا چاہےے کہ افغانستان مےں امرےکہ اور نےٹو افواج کو تمام رسد پاکستان کے راستہ ہی جاتی ہے، جس کے بغےر جنگ ممکن نہےں۔امرےکہ ا ور پاکستان دونوںطرف بہت جوش نظر آ رہا ہے لےکن جوش کے ساتھ ہوش کا قائم رہنا دونوں ملکوں کی ضرورت ہے۔