وزےراعظم گےلانی کی سرکردگی مےں کابےنہ کے وزراء، عسکری قےادت بشمول I.S.Iکے سربراہ جنرل پاشا (جو اس قسم کے دوروں مےں بالعموم شرکت نہےں کرتے) اےک ہمہ مقتدر وفد نے کابل کا دورہ کےا۔ دورہ کا مقصد پڑوسی ملکوں کے درمےان عدم اعتمادی کی فضا کو دور کرنا اور اےک اےسے ماحول کی تشکےل تھا جس مےں موجودہ جنگ سے نجات اور امن کی طرف پےش رفت ممکن ہو سکے۔ وزےراعظم گےلانی نے صدر کارزئی کو ےقےن دلاےا کہ پاکستان اےک پر امن، خوشحال، مستحکم افغانستان مےں دلچسپی رکھتا ہے۔Strategic Depth جےسے فضول نظرےات سے اس کا کوئی تعلق نہےں۔ عسکری قےادت نے اپنے افغان ہم منصبوں سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی اور فرےقےن نے فےصلہ کےا شدت پسندوں سے مذاکرات کےلئے راستے تلاش کئے جائےں ۔ اس ضمن مےں سب سے اہم پےش رفت ےہ ہوئی کہ دونوں ملکوں نے پاک افغان کمےشن کے قےام پر اتفاق کےا جس مےں لےڈ رول افغانستان کا ہوگا۔ پاکستان صرف سہولت فراہم کرنے کا رول ادا کرےگا۔ پاک افغان تعلقات مےں ےہ گرم جوشی بالخصوص پاک افغانستان کمےشن کا قےام امرےکہ کے لئے نئی بات تھی۔ اس پےش رفت کو امرےکی انتظامےہ نے تعجب اور حےرت کی نظر سے دےکھا ہے۔ ان لوگوں کی سمجھ مےں ےہ بات نہےں آ رہی کہ اتنا بڑا واقعہ امرےکہ کی اطلاع اور اجازت کے بغےر ممکن کےسے ہو گےا۔ دراصل دونوں ملکوں کی سول اور عسکری قےادت کو اندازہ ہوچکا تھا کہ ہزاروں مےل سے آئی ہوئی سپاہ کے مفادات پاکستان اور افغانستان کے مفادات سے ہم آہنگ نہےں ۔ خطے کے ملکوں کو تو ہمےشہ ساتھ رہنا ہے۔ باہر کے لوگ خواہ کتنے ہی طاقتور کےوں نہ ہوں اےک دن رخصت ہو جاتے ہےں۔ پھر امرےکی صدر نے تو افغانستان سے امرےکی سپاہ کے انخلاءکی تارےخ کے آغاز کا اعلان بھی کر رکھا ہے (14 جولائی 2011)۔ چنانچہ افغانستان اور پاکستان نے فےصلہ کےا ہے کہ باہمی مشاورت اور مفاہمت کے جذبہ سے علاقائی مسائل کا حل تلاش کرےں گے۔پاک وفد کے دورہ افغانستان کے بعد سفارتی سرگرمےوں مےں بہت تےزی آگئی ۔ (جوں جوں 14 جولائی قرےب آتا جائے گا ان سرگرمےوں مےں اضافہ ہو گا)۔ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمےان عسکری اور سفارتی قےادت کے دورے ہونے لگے ۔ امرےکی سپاہ کے متعدد اعلیٰ عہدے داروں نے اسلام آباد کا دورہ کےا اور پاک فوج کے سربراہ جنرل کےانی اور دےگر اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقاتےں کےں ان مےں سےنٹ کام (Cent Com.) کے کمانڈر جنرل جےمز مےٹس (James Mattis)، جوائنٹ چےف آف آرمی سٹاف چےئر مےن اےڈمرل مائیکل مولن، امرےکی چےف آف سٹاف جنرل ڈےمپسی (Dampsey) اور اےساف کے کمانڈر پےٹرےاس وغےرہ شامل ہےں۔ پچھلے ہفتہ پاکستان کے سےکرٹری خارجہ واشنگٹن گئے تاکہ پاک امرےکہ سٹرےٹجک مذاکرات کی اگلی نشست کا اےجنڈہ طے کےا جا سکے۔ وہاں ان کی ملاقات اپنے ہم منصبوں کے علاوہ افغانستان اور پاکستان مےں امرےکہ کے خاص نمائندہ مارک گراس مےن سے بھی ہوئی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ خطہ کے اپنے اگلے دورہ مےںسہہ فرےقی (Re conciliation) کے مختلف آپشنز پر توجہ دےںگے۔ جب ان سے مصالحتی پروسےس کی وضاحت طلب کی گئی تو دونوں نے کہا کہ پروسےس افغان owned & lead ہو گا اور امرےکہ اور پاکستان معاون اور امداد فراہم کرنے کا رول ادا کرےں گے۔ہمارے سےکرٹری دفاع بھی عنقرےب واشنگٹن جانے والے ہےں۔امرےکی انتظامےہ کا اےک حصہ اس بات کے حق مےں ہے کہ افغانستان کے معاملات مےں بھارت کو اےک مستقل کردار دےا جائے۔ اس رجحان سے پاکستان مےں قدرتی طور پر تشوےش پےدا ہوتی ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان مےں بھارت اثر رسوخ مےں اضافہ بلوچستان انسرجنسی مےں اضافہ کی اےک بڑی وجہ ہے اور افغان معاملات مےں بھارت کو کوئی اضافی رول دےا گےا تو اس سے پاکستان کی مشکلات مےں اضافہ ہو گا۔ پاک امرےکہ تعلقات ہمےشہ گرم جوشی اور سرد مہری کے بےن بےن چلتے رہے ہےں لےکن اس مرتبہ ان مےں بگاڑ کی کچھ اور ہی صورت نظر آتی ہے....
بارہا دےکھی ہےں ان کی رنجشےں
پر کچھ اب کے سر گرانی اور ہے
امرےکہ کی اس سرگرانی کا سبب سمجھ مےں بھی آتا ہے۔دس سال سے جاری اس جنگ مےں کامےابی کی کوئی صورت نظر نہےں آتی۔جنگےں بالعموم گفت و شنےد اور مذاکرات پر ختم ہوتی ہےں۔امرےکہ بہت بڑی قوت ہے۔ اس کے مختلف شعبے جو جنگ مےں مصروف ہےں اپنی اپنی رائے رکھتے ہےں۔ پےنٹا گون، سٹےٹ ڈےپارٹمنٹ، وہائٹ ہاﺅس، سی۔آئی۔اے وغےرہ۔ ان مےں ہم آہنگی پےدا نہےں ہو سکی اور ےہی امرےکہ کے راستہ کا سب سے بڑا پتھر ہے۔امرےکہ مےں اگلا سال انتخاب کا سال ہوگا۔ اس سال صدر اوبامہ امرےکی ووٹرز کو امن نام کی کوئی چےز دکھانا چاہےں گے۔مگر کےا ےہ ممکن ہے؟ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ہمےں پھونک پھونک کر اور سوچ سمجھ کے قدم اٹھانا چاہےے۔ تعلقات مےں بگاڑ پےدا کر لےنا تو آسان بات ہے مگر کےا اےسا کرنا ہمارے قومی مفاد مےں ہو گا! امرےکہ کے ڈرون حملوں سے ملک مےں معصوم لوگوں کی بھی بہت ہلاکتےں ہوئی ہےں جس کی وجہ سے ہماری پارلےمان ، حکومت ، عسکری قےادت سب ہی سخت ناراض ہےں۔ امرےکہ سے احتجاج ہوئے، ڈرون حملے بند کرنے کے مطالبات ہوئے، دھرنے دئےے گئے لےکن ےہ حملے ابھی تک رکے نہےں ہےں۔ جنرل پےٹرےاس کے سی۔آئی۔اے کا سربراہ مقرر ہونے سے اندےشہ ہے ہمارے تعلقات اور ڈرون حملوں مےں مزےد بگاڑ پےدا ہو گا۔ امرےکہ کو ےہ زعم کہ امرےکی امداد کے بغےر پاکستان کا گزارہ ممکن نہےں۔ لےکن امرےکہ کو بھی ےاد رکھنا چاہےے کہ افغانستان مےں امرےکہ اور نےٹو افواج کو تمام رسد پاکستان کے راستہ ہی جاتی ہے، جس کے بغےر جنگ ممکن نہےں۔امرےکہ ا ور پاکستان دونوںطرف بہت جوش نظر آ رہا ہے لےکن جوش کے ساتھ ہوش کا قائم رہنا دونوں ملکوں کی ضرورت ہے۔