غلام احمد بلور اورالطاف حسین اور رحمن ملک فرماتے ہیں کہ ہم بائیں بازو کی جماعتوں پر الیکشن کا میدان تنگ بلکہ بند کیا جارہا ہے ۔ آفرین ہے ایسے بائیں بازو پر ۔کاش "بائیں بازو "فقط ایک نعرہ ہوتا تو بہت سہانا تھا مگر یہ ایک نظریہ ہے جواپنی پیدائش سے آج تک بہت شکلیں تبدیل کر چکا ہے کاش کوئی ان لبرل لیڈروںاور دانشوروں کو سمجھا سکے ۔
1300سال پہلے Hiuen Tsangچین سے ہندوستان علم کی تلاش میں آیا اس کو "Master of the law"..the law of the buddah کا خطاب ملا ،وہ اپنی کتاب میں ایک آدمی کے بارے میں لکھتے ہیں جو جنوبی ہندوستان سے آتا ہے اور وہ آدمی اپنی کمر کے گرد تانبے کی پلیٹیں باندھے اور سر پر لیمپ رکھے گھومتا تھا ،کسی نے تجسس کے مارے اس حلیے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ میرے پاس علم بہت ذیادہ ہے پیٹ سے گر نہ جائے اس لئے تانبے سے پیٹ کو باندھے رکھتا ہوں اور میں جہاں رہتا ہوں وہاںکے لوگ اندھیرے میں رہتے ہیں ان جاہلوں پر مجھے ترس آتا ہے اس لئے انہیں روشنی دکھانے کیلئے میں سر پر لیمپ رکھ کر گھومتا ہوں۔یوں لگتا ہے کہ ہمارے دانشوروں اور لبرل سیاست دانوں کو بھی پیٹ پر تانبا باندھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی حکمت ان کے اندر ہی رہے ۔ ڈاکٹر طاہر قاضی نے ملین ڈالر کی بات کی کہ بہت سے لوگوں نے lazy سے Lلے کر left میں لگا دیا ہے اور یوں انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں وہ بائیں بازو سے مراد لادینت لیتے ہیں حالانکہ کوئی شخص بہت مذہبی ہے اور وہ انسانوں کے بنیادی حقوق میں برابری اور ذرائع کی مساوی تقسیم پر یقین رکھتا ہے تو وہ بھی left winger ہوسکتا ہے ۔مگر ANPکے غلام احمد بلورفرماتے ہیں کہ" ہم مُلا نہیں اس لئے شدت پسند ہمارے خلاف ہیں "
1789میں فرانس انقلاب کے وقت وہ لوگ جو بادشا ہ یا مذہب کے حمایتی ہوتے ،نیشنل اسمبلی میں صدر کے دائیں ہاتھ بیٹھتے اور مخالفت کرنیوالے بائیں ہاتھ ۔دنیا آگے بڑھتی رہی ،شہنشاہیت سے جاگیرداری اور جاگیرداری سے سرمایہ داری ۔کارل مارکس نے جب ذرائع کی مساوی تقسیم اور انسانوں کے درمیان مساوی حقوق کی بات کی تو leftکا تصور مذہب اور سیاست سے نکل کر سماجیات اورمعاشیات میں داخل ہوگیا مگر ہمارے left وہیں کے وہیں رہے ۔right والے ہمیشہ خطِ مستقیم پر ہی رہے انہوں نے پہلے شہنشائیت کی حمایت کی تو پھر جاگیرداری کی اور پھر سرمایہ داری کی یعنی انہوں نے زور دار کا ساتھ نہ چھوڑا ، اور اس بات پر قائم رہے کہ غیر مساویانہ تقسیم فطری ہے اور ہمیں اسے قبول کرنا چاہیے،اور کیا آپ نہیں دیکھتے کہ تمام بڑی جماعتیں جو پچھلے پانچ سال حکومت میں رہیں اسی اصول پر کاربند رہیں ۔ کیا ان میں سے کسی ایک جماعت نے بھی left کو لادینیت سے ذیادہ کچھ سمجھا ؟اگر سمجھا ہوتا ، تو سرمایہ دار اور صنعت کار کے گھروںمیں دولت کے انبار اور غریب کسان اور مزدور دو وقت کی روٹی کو نہ ترستا رہتا ۔ جب کراچی ، لاہور فیکٹری کو آگ لگی تو اسکے بعد مزدور کے بنیادی حقوق کیلئے بنیادی قانون بنا کر ان پر عمل پیرا بھی کروایا جاتا ۔مگر یہ رہے capitalismکے پیرو کار۔ The 2001 book The government and politics of France میںسرمایہ دارنہ نظام کے بارے میںلکھا ہے:
مغربی یورپ میں دائیں اور بائیں بازو کو تقسیم کرنیوالا اہم عنصر "طبقہ"ہے ۔بائیں بازو والے ہمیشہ معاشی انصاف کی توقع سماجی اور معاشی پالیسیوں سے کرتے ہیں جبکہ دائیں بازو نے ہمیشہ پرائیویٹ پراپرٹی اور سرمایہ داری کو تحفظ دیا ہے۔Roger Eat-well کیمطابق دائیں بازو والے ہمیشہ جمہوریت کے مخالف ،قوم پرست اورمتعصب ہوتے ہیں ۔The US department of homeland securityنے دائیں بازو والوں کی شدت پسندی کی تعریف یوں کی ہے :
یہ ایسے hate groupsہوتے ہیں جو نسل ،زبان اور مذہب کی بنیاد پر اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں ۔اور شائد ایک ہی مسئلے کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں ۔یہ لوگ علاقائی ،گروہی قوم پرستی کی بھی حمایت کرتے ہیں اگر ایم کیو ایم اپنے آپ کو بائیں بازو کی جماعت اس بنیاد پر کہے کہ وہ جاگیرداری نظام کو چیلنج کرتی ہے ،درست، مگر کیا یہ لوگ گروہی بنیادوں پر سیاست کر کے بائیں بازو کے ہوسکتے ہیں ؟ مزید ایم کیو ایم کا" جمہوریت کی حمایت" اگر بائیں بازو کا جھومر لگانے کا باعث ہے تو کیا یہ جماعت آمروں کے ساتھ الحاق نہیں کرتی رہی ۔
اس اصول کی روشنی تینوں جماعتوں پر ڈالئے جو اپنے آپکو بائیں بازو کی جماعت اور دوسری جماعتوں کو دائیں بازو کی کہہ رہی ہیں تو آپ خود ہی سمجھ جائینگے کہ حقیقت کیا ہے ۔رحمن ملک فرماتے ہیں کہ عالمی طاقتیں بائیں بازو والی جماعتوں کے خلاف سازش کر کے دائیں بازو والی جماعتوں کو لا نا چاہتے ہیں ۔
ترقی یافتہ ممالک میں چونکہ سرمایہ دارانہ نظام نے کارل مارکس کی بصیرت اور سوشل جمہوریت سے بہت کچھ اپنایا ، اس لئے آج ہم ترقی یافتہ مما لک میں capitalismکے باوجود عام انسان کی زندگی سہولیات سے مالا مال دیکھتے ہیں۔ ورنہ پاکستان اور دوسرے تھرڈ ورلڈ ممالک میں یہ اپنی بدصورت شکل کے ساتھ موجود ہے اور پاکستان میں تو بھٹو جیسا سوشلسٹ بھی حکومت سنبھالتا ہے تو سوائے یکم مئی کو مزدوروں کا دن قرار دینے کے علاوہ مزدورں کیلئے کچھ نہیں کرتا ۔ survival of the fittestجنگل ،سمندر اور ہواﺅں میں بسنے اڑنے والوں کا قانون سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے اورجہالت کا اندھیرا دور کرنے لئے جنہوں نے سر پر ٹارچ باندھ رکھی ہے ۔ اور left,left کا نعرہ لگائے جاتے ہیں ۔ ہمیں ضرورت ہے ملک کی معاشی اور اقتصادی پالیسی میں ایسی تبدیلی کی جو غریب کو دو وقت کی روٹی ، تعلیم اور روزگارکے یکساں مواقع اورجان و مال کا تحفظ دے سکے ۔