ہم بحیثیت قوم کب بیدار ہوں گے؟

سوال یہ ہے کہ کیا تاریخ شخصیتیں بناتی ہے یا شخصیتوں کوتاریخ بناتی ہے؟ ہماری تاریخ آزادی یہ ظاہر کرتی ہے کہ شخصیتیں تاریخ کو بناتی ہیں اور حضرت قائداعظم کے افکار و عمل سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ موجودہ ہنگامی دور میں پاکستان کی نگران حکومت کی ذمہ داریاں ہماری ملکی و قومی فلاح و بہبود اور مستحکم پاکستان، امن عامہ کی بحالی، مہنگائی کے تدارک، بیروزگاری کے خاتمہ، قومی یکجہتی کی فضاءقائم کرنے اور الیکشن کو پرامن طریقہ سے پایہ تکمیل تک پہنچانا وغیرہ پر محیط ہیں۔ جس کے لئے نگران حکومت نے مرکزی اور صوبائی سطح پر اپنی اپنی کابینہ تشکیل دی ہے۔ عالمی ادارے اسوقت پاکستان میں رائے عامہ کی مسلسل نگرانی کررہے ہیں کیونکہ نگران حکومت کا ڈھانچہ عالمی قوتوں کی نگرانی میں قائم کیا گیا ہے۔ چنانچہ ملک میں تبدیلی کے لئے نئے اور شفاف انتخابات کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا ۔ اگرچہ نگران حکومت کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے لیکن اسے بھی اپنے مخصوص ذریعے سے عوام کی سیاسی اور اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔ عوام جب تک ووٹ ڈالنے کی روایت تبدیل نہیں کرینگے اسوقت تک انتخابات کے ذریعے بھی مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔ پاکستان کے عوام جن لوگوں کو جھولی بھر بھر کر ووٹ دیتے ہیں بعد میں انہیں جھولیاں بھر بھر کر گالیاں دیتے ہیں۔ وطن عزیز میں نگران حکومت اور غیر جانبدار الیکشن کمشن کی موجودگی میں ہم یہ امید رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس پیچیدہ صورت حال کی روشنی میں ہمیں ایسی فقید المثال روشنی کی کرن نظر آجائے لیکن کہیں وہ روشنی ایسی نہ ہو جو سرنگ کے دوسرے سرے سے آنے والی ریل گاڑی کی لائنوں سے نمودار ہونے کی صورت میں دو گاڑیوں میں تصادم کا خطرہ پیدا کرتی ہے اور تصادم کے معنی اور نتائج آپ خوب سمجھتے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت ہونے کے باوجود بھی کشکول اٹھا کر دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں لیکن اس ملک سے لوٹ مار کی دولت کو ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اپنے ملک سے باہر ممالک میں محفوظ کر لیا ہوا ہے۔ نگران حکومت سے ہماری توقع ہے کہ وہ بیرونی قرضوں پر اپنا کاروبار چلانے کی بجائے اندرون ملک اپنے ریونیو پر انحصار کرے۔ باعزت، خود مختار قومیں اغیار کی بھیک، امداد، قرضوں اور دان پر گذارہ نہیں کرتیں بلکہ وہ صرف اپنے زور بازو پر کرتی ہیں۔ چین کا ایک معروف محاورہ ہے کہ ہم اپنے پانی سے ہی گذربسر کر سکتے ہیں۔ دور کے پانی سے ہم اپنی پیاس نہیں بجھا سکتے خواہ ایف 16 کے ذریعے امریکہ ہی سے کیوں نہ لایا جائے۔ ہمیں اب بھی بھروسہ ہے کہ عوام صحیح معنوں میں اپنے اندر من حیث القوم ایسی بیداری کی تڑپ پیدا کرے گی جو ہماری آنے والی قیات کو صالح، نیک بنانے کا وسیلہ پیدا کرے گی۔ ہم ماضی حال اور مستقبل کے قرض اتار کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری ایک تاریخ تھی اسلئے جغرافیہ مل گیا۔ نظریہ وجود نہ پاتا تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا ہماری اور آنے والی نسلوں کی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان ایک واضح مقصد کے تحت بننے والا نظریاتی ملک ہے دنیا کا واحد ملک ہے جو کسی جارح کی جارحیت کا نتیجہ نہیں۔ جسے کسی زبان رنگ یا نسل کی بنیاد پر حاصل نہیں کیا گیا۔ کوئی زمینی ہم آہنگی دریاﺅں کا کوئی اختلاف سمندر کا اتار چڑھاﺅ یا ہواﺅں کے بدلتے رخ، کوئی طالع آزمائی یا تیغ زنی، کوئی ہوس گیری یا طبقاتی کشمکش وجہ تخلیق نہیں بنی۔ قائداعظم نے صرف ایک نعرہ لگایا ”ہم مسلمان ہیں اور یہ ملک ایک اسلامی جمہوری پاکستان ہے ہمیں اسلام کے اصولوں کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لئے علیحدہ وطن چاہئے“ پاکستان اور پاکستانیوں کی اس کے علاوہ اگر کوئی تعریف کی جاتی ہے تو وہ ملک اور قوم دونوں کے خلاف کھلی سازش ہے۔ بے شک اگر حضرت قائداعظم زندہ ہوتے تو وہ ان تمام مسائل کو حل کر لیتے جو ہمیں آج درپیش ہیں۔ ہم نے اپنا حقیقی فرض بھلا دیا۔ ہم نے زیر تربیت نسل کو پاکستان کے حقیقی پس منظر سے بھی روشناس نہ کرانے اور حضرت قائداعظم کے فرمودات، تعلیمات اور فلسفہ پاکستان کی روح سے متعارف نہ کرانے کا قومی جرم کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہماری قومی سیاست کا چلن بھی بالکل بدل چکا ہے اور ڈالروں کی جھنکار پر رقص کرنے والوں نے پاﺅں میں اب پائل بھی باندھ لی ہے۔ اقتدار کے سیاسی اور غیر سیاسی ایوانوں میں ہماری اکثریت نے اپنی خودی کو بیچ دیا لیکن غریبی میں نام پیدا کرنے کا حوصلہ نہیں پایا۔ یاد رکھیئے! پاکستان کے وقار کو قائم رکھنے کے لئے دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے درمیان باہمی مفادات کے رشتے تو قائم رہ سکتے ہیں لیکن خوف کے نہیں۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی ریاست نے کسی خوف زدہ ریاست پر رحم کیا ہو اور اس کو آزادی سے جینے کا حق دیا ہو۔ سر اٹھا کر وہی قومیں جیتی ہیں جن میں طاقت کے ساتھ ساتھ حوصلہ بھی ہوتا ہے۔پاکستان کی موجودہ مایوس کن سیاسی معاشی اور متصادم صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہمارے عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ہمارے ہاں وہ کونسی وجوہات ہیں جو اس ملک کی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ پاکستان کے خمیر میں جان نثاری، قربانی، صبر اور دین داری کی خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن ان خوبیوں کے حامل افراد دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں یہ دھڑے سیاسی بھی ہیں اور مذہبی بھی۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں محب وطن لوگوں کی کمی نہیں لیکن ان جماعتوں کے مجموعی نتائج ہیں خوشحالی اسلئے نہیں دے سکتے کہ مقتدر لوگوں کی شخصیت خود پسندی اور ہوس اقتدار سے لبریز ہے پاکستان کی غریب عوام پر قرضوں کا بوجھ کئی گنا ہوچکا ہے۔ قومی اداروں کو تباہ کردیا گیا ہے، ملک تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس تباہی کے ذمہ دار پھراگلی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ از سر نو قوم کو بے وقوف بنانے کے لئے نئے نعرے گھڑ رہے ہیں تو کیا ہم اس مرتبہ پھر ان سیاسی بازی گروں کے ہاتھوں کھلونا بننے کے لئے تیار ہیں؟ .... اگر ایسا ہے تو سوچنا پڑے گا کہ ہم بیحیثیت قوم کب بیدار ہوں گے؟

ای پیپر دی نیشن