”جمہوریت اور آمریت میں۔آنکھ مچولی“

عام انتخابات سے11دِن پہلے ،اسلام آباد میں یومِ شُہدا کی تقریب سے، خطاب کرتے ہُوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق کیانی نے کہا کہ۔” جمہوریت اور آمریت میں آنکھ مچولی (Hide and Seek) کا اعصاب شکن کھیل صِرف سزا و جزا کے نظام سے نہیں بلکہ عوام کے شعور سے ہی ختم ہو سکتا ہے اور11مئی سے جمہوریت کی اعلیٰ روایات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتاہے“۔ بجا فرمایا !۔لیکن یہ نُکتہ قابلِ توجہ ہے کہ، پاکستان میں جب بھی (فوجی) آمریت قائم ہوئی ،وہ ” خالص اور مکمل“۔ تھی لیکن ہمارے یہاں۔” خالص اور مکمل جمہوریت“۔ کبھی بھی نہیں رہی ۔اِس لئے ۔” آنکھ مچولی کا کھیل“۔ جمہوریت اور آمریت میں نہیں ،ہمیشہ آمروں اور اُن لیڈروں کے درمیان ہوتا رہا جو جمہوریت کے علمبردار کہلاتے تھے،لیکن انہوں نے اقتدار میں آکر خود جمہوریت کو، پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دِیا ۔ حقیقی جمہوریت جہاں بھی قائم ہوتی ہے،وہاں عوام خوشحال ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے حکمرانوں کی دِل سے عزت کرتے ہیں ، لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا ۔ اِس لئے جب کوئی آمر اقتدار پر قبضہ کرلیتا ہے تو عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا ، کیونکہ آمریت میں بھی تواُن کے مسائل حل نہیں ہوتے ۔لہٰذا ۔۔۔” اُن کی بلا سے ، بُوم رہے ، یا ہُما بسے “جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہ بھی کہا کہ۔” ہم عظیم قُربانیوں کے باوجود اُس منزل سے دُور ہیں جِس کا خواب علّامہ اقبالؒ اور قائدِاعظمؒ نے دیکھا تھا “۔ مِن حیث اُلقوم ہماری بد قسمتی یہی ہے کہ ۔کسی بھی دَور میں اور کسی بھی حکومت نے، نئی نسل کوعلّامہ اقبال ؒ اور قائدِاعظمؒ کے افکار و نظریات سے روشناس کرانے اور خود اُن پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔یہاں تک کہ ۔” مسلم لیگ“۔ کے نام سے سیاست کرنے والے مختلف دھڑوں نے بھی ۔جنرل ایوب خان، جنرل ضیاءاُلحق اور جنرل پرویز مشرّف نے تو ابن اُلوقت لوگوں سے نئی مسلم لیگیں بھی بنوائیں ۔ اِس لئے کہ آل انڈیا مسلم لیگ ، پاکستان کی خالق تھی۔اب بھی بہت سے لوگ حیات ہیں جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں عملی طور پر حِصّہ لِیا اور کبھی آمریت اورمسلم لیگ کا نام ا ستعمال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ اُن میں محترم مجید نظامی کا نام سرِفہرست ہے۔ایک خطرناک بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کے وارث کہلانے والوں کی بے حسِی اور عدم توجہی سے فائدہ اُٹھا کر تحریکِ پاکستان کی مخالفت اور علّامہ اقبالؒ اور قائدِاعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے دینے والے کانگریسی مولویوں کی صُلبی اور معنوی اولاد نے علّامہ اقبال ؒ اور قائدِاعظمؒ کے تصوّرِ پاکستان اور نظریہءپاکستان “۔کی من مانی تعبیر اور تفسیر کر کے نئی نسل کے لوگوں کو گمراہ کر نے کا فریضہ سنبھال لیا ہے ۔ طالبان ۔ انہی لوگوں کے مدرسوں کی پیداوار ہیں جو علی الاعلان کہتے ہیں کہ ۔” جمہوریت ایک کا فرانہ نظام ہے“۔ جنرل اشفاق کیانی کو اس صورتِ حال کا مکمل ادراک ہے ۔ اِس لئے انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ۔” اگر ایک گروہ پاکستان کے آئین اور قانون سے بغاوت کرتے ہُوئے ،اپنے غلط نظریات ہم پر مسلّط کرنا چاہے اور اَس مقصد کے لئے خونریزی کو جائز سمجھتا ہو بلکہ ریاست ِ پاکستان ،جمہوری عمل اور بے گناہ شہریوں کے خلاف باقاعدہ ہتھیار بند ہو جائے تو اُس کا قلع قمع کیوں نہیں کِیا جائے گا؟“۔جنرل کیانی نے ۔ دہشت گردی اور شِدّت پسندی کو ۔” ناسُور “۔ قرار دیا ۔ ناسُور کسی بھی قِسم کا ہو ۔اُس کا علاج تو آپریشن ہی ہے، لیکن فی الحال پاک فوج کے سامنے سب سے بڑا آپریشن یہی ہے کہ وہ عام انتخابات کے پُر امن انعقاد کے لئے اپنی قومی اور آئینی ذمہ داریاں پورا کرے ۔ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لئے، دہشت گردوں اور شِدّت پسندوں کی طرف سے جو غیر انسانی سرگرمیاں جاری ہیں اور جِس انداز میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آرہے ہیں ، اُس سے پورے مُلک میں دہشت اور خوف و ہراس کی فضا پید اہو رہی ہے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی ساکھ بھی پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہو رہی ہے ۔ دہشت گرد تو یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بُری بھلی جمہوریت بھی نہ چلنے پائے۔ذوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور صدر آصف زرداری نے مفلوک اُلحال عوام کے لئے کچھ نہیں کیا ۔” شہادتوں اور قربانیوں کی داستانیں “۔ سُنا سُنا کر ہی بھوکوں کے پیٹ بھرنے کی کوشش کی گئی ۔پیپلز پارٹی کے سارے قائدین یہی گِلہ کرتے رہے ہیں کہ ۔” ہماری حکومتوں کو اپنی مقررہ مُدّت پوری نہیں کرنے دی گئی “۔ مارچ2013ءتک تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مِل کر 5سال کی مقررہ مُدّت پوری کر لی ،لیکن غریبوں کے دُکھ دُور نہیں ہوئے ۔ اب سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخو ا میں دہشت کی آڑ میں پھِر ۔” مظلومیت کی نئی داستانیں“۔ بیان کی جا رہی ہیں ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی پہلے ہی انتخابات میں پاک فوج کے بھرپور تعاون کا اعلان کر چُکے ہیں ،لیکن انہیں ایسا ہی انتظام کرنا ہو گا کہ پیپلز پارٹی اور اُس کی اتحادی جماعتوں ایم۔کیو۔ایم اورعوامی نیشنل پارٹی کو اپنی انتخابی مُہم چلانے کے لئے پُر امن ماحول مِلے۔ یہ اُن کا بنیادی حق ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِن تینوں جماعتوں نے ابھی سے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے کہ ۔” عالمی طاقتیں ، پاکستان میں طالبان کی پسند کا وزیرِاعظم لانا چاہتی ہیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کو اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتیں“۔یہ بیان کتنامضحکہ خیز ہے اِس لئے کہ۔5سال تک دائیں اور بائیں۔(دونوں بازو ﺅںسے)۔ قومی خزانے کو لوٹنے والی جماعتیں اب کِس مُنہ سے خود کو بائیں بازو کی جماعتیں کہہ رہی ہیں ۔بائیں بازو کی جماعتیں تو ۔ غریبوں کے حق میں انقلاب لاتی ہیں ۔عالمی طاقتیں تو پاکستان سے طالبان کا مکمل صفایا چاہتی ہیں وہ تو پاک فوج ،آزاد اور خود مختارمیڈیا اور سِول سوسائٹی کے لوگ ہیں جو وطنِ عزیز میں خون خرابہ نہیں چاہتے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں بھی ہیں بشرطِ کہ وہ آئین ِ پاکستان کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوریت کے خلاف جدوجہد ترک کر دیں ۔ جمہوریت ۔جو پاکستان کی اساس ہے ۔ اِس حقیقت کا جنرل کیانی نے بھی اعتراف کیا ہے ۔جنرل کیانی کا یہ نقطہ نظر بھی درست ہے کہ۔” انتخابات کا انعقاد بذاتِ خود مسائل کا حتمی حل نہیں بلکہ مسائل کے حل کی طرف ایک اہم قدم ضرور ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ 11مئی کے انتخابات کے نتیجہ میں وفاق اور صوبوں میں قائم ہونے والی حکومتوں کے لئے شاید یہ آخری موقع ہو گا کہ وہ جمہوریت اور آمریت کے ثمرات کو عوام تک پہنچانے کا بندوبست کریں ۔ جنرل کیانی نے جمہوریت اور آمریت میں ہونے والی آنکھ مچولی کو اعصا ب شکن کھیل قرار دیا ہے ،لیکن ۔” اعصاب شکن“۔ کِس کے لئے ؟۔ صِرف عوام کے لئے؟ 

ای پیپر دی نیشن