لاڑکانہ ضلع چار تحصیلوں لاڑکانہ، رتوڈیرو، باقرانی اور ڈوکری پر مشتمل ہے، جس کی کل آبادی تقریبا 14 لاکھ کے قریب ہے، جس میں حالیہ الیکشن میں 6 لاکھ کے قریب رجسٹرڈ ووٹرس اپنا حق راءدہی استعمال کریں گے، لاڑکانہ ضلع میں رہنے والے بڑی برادریوں میں بھٹو، عباسی، کھوڑو، شیخ ،میمن، جتوئی، میرانی، عباسی، ابڑو، جلبانی، چانڈیو اور دیگر برادریان شامل ہیں، جن کا جھکاو¿ ہمیشہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف ہی رہا ہے، تاہم حالیہ انتخابات میں ان میں سے شیخ، عباسی، میرانی، کھوڑو برادری پیپلز پارٹی کے مخالف امیدواران کو ووٹ دینے کا اعلان کرچکی ہے، جبکہ ان میں سے متعدد برادریوں نے اپنے ہی امیدواران انتخابات میں کھڑے کردئے ہیں۔ مضبوط امیدواروں میں پیپلز پارٹی سے ناراض ڈاکٹر صفدر عباسی نیشنل اسمبلی کی سیٹ این اے 205، انہی کے بھتیجے معظم علی عباسی این اے 204، محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے نزدیکی ساتھی حاجی منور علی عباسی پی ایس 38، پیپلز پارٹی میں حالیہ شامل ہونے والے سیف اللہ ابڑو پی ایس 37 پر مضبوط آزاد امیدوار تصور کئے جا رہے ہیں، جبکہ ان سب کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے، اس بارپاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے ہی گھر لاڑکانہ میں اپنے ہی کارکنان کی ناراضگی کا سامنا ہے، اس کی واضح مثال لاڑکانہ شہر میں اثر انداز ہونے والی شیخ برادری جو کہ کئی دھایوں سے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیتی رہی ہے، نے فنکشنل لیگ میں شمولیت کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ پی ایس 36لاڑکانہ شہر میں اسپیکر سندھ اسیمبلی نثار احمد کھوڑو کے مقابلے میں سابق تحصیل ناظم نظیر احمد شیخ کو امیدوار کے طور پر نامزد کیا ہے، جس سے پیپلز پارٹی شدید مشکلات کا شکار ہوتی جا رہی ہے، لاڑکانہ ضلع میں قومی اسیمبلی کی 2 نشستیں این اے 204 لاڑکانہ باقرانی اور 205ڈوکری نصیرآباد، جبکہ صوبائی اسیمبلیوں میں پی ایس 35 باقرانی، 36 لاڑکانہ شہر، 37 رتودیرو اور 41 باڈھ نصیرآباد شامل ہیں، جن میں 2008ع میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواران نے کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والی امیدوار ق لیگ سے تعلق رکھتے تھے، سن 2008ع میں قومی اسمبلی کی سیٹ این اے 204پر پیپلز پارٹی کے شاہد حسین بھٹو 81439، جبکہ پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو 12271 ووٹ حاصل کر سکی، این اے 205پر پیپلز پارٹی کے نظیر حسین بگھیو 72928، جبکہ مقابلے میں ق لیگ کے حاجی الطاف انڑ 25846 ووٹ حاصل کر سکے، صوبائی اسمیبلی کی چار نشستون پر پی ایس 35پر پیپلز پارٹی کے غلام سرور سیال 31262، جبکہ ق لیگ کے حاجی الطاف حسین انڑ 18672 ووٹ حاصل کرسکے، پی ایس 36 پر نثار احمد کھوڑو 46427 جبکہ ایم کیو ایم کے جاوید مٹھانی صرف 929ووٹ حاصل کر سکے، پی ایس 37پر پیپلز پارٹی ضلع لاڑکانہ کے صدر محمد ایاز سومرو 40770، جبکہ مقابلے میں ممتاز بھٹو کے صاحبزادے آزاد امیدوار امیر بخش بھٹو 18124 ووٹ حاصل کر سکے، پی ایس 41 پر پیپلز پارٹی کے عزیز احمد جتوئی 37661 جبکہ ق لیگ کے عبدالغفار 6485وو ٹ حاصل کر سکے۔ تاہم اس بار پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی بہتر نہ ہونے کے باعث عوام میں پیپلز پارٹی کے خلاف ان کے اپنے ہی گھر میں بغاوت کی ایک لہر موجود ہے، جس کے باعث پیپلز پارٹی جہاں مشکلات کا شکار ہے، وہیں نئے چہروں کو بھی انتخابات میں سامنے لایا جا رہا ہے، پیپلز پارٹی کی پارلیمانی بورڈ کی جانب سے اس بار لاڑکانہ کی دو قومی اور چار صوبائی نشستون پر اپنے امیدوار فائنل کر لئے گئے ہیں، جس کے مطابق لاڑکانہ این اے 204 پر محمد ایاز سومرو، این اے 205پر نظیر احمد بگھیو، پی ایس 35 پر الطاف انڑ، پی ایس 36پر نثار کھوڑو، پی ایس 37 پر محمد علی بھٹو، جبکہ پی ایس 41 پر عزیز احمد جتوئی کو ٹکٹس دی جا رہی ہیں، موجودہ صورتحال روایتی فاتح پارٹی پیپلز پارٹی کیلئے اس بار اس لئے بھی پریشان کن ہے، کیونکہ ٹکٹس نہ ملنے پر پیپلز پارٹی کے ہی اپنے رہنماو کارکنان آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں، اس سلسلے میں لاڑکانہ این اے 204 پر سابق ایم این اے شاہد حسین بھٹو کی کارکردگی مایوس کن ہونے کے باعث اس بار انہیں پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کی گئی، تاہم وہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں، سابق ایم پی اے حاجی منور علی عباسی کے صاحب زادے نوابزاہ معظم عباسی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں، اور اس صورتحال میں اس حلقہ پر نتائج پیپلز پارٹی کے خلاف جا سکتے ہیں، کیونکہ اس حلقہ پر عباسی خاندان کا مضبوط ووٹ بینک موجود ہے، اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید قائم علی شاہ اور نثار احمد کھوڑو، معظم عباسی کو منانے کیلئے ان کے گھر پہنچے اور ان کے والد حاجی منور علی عباسی سے ملاقات کی، تاہم معظم عباسی نے پہلے تو ان سے ملنا بھی مناسب نہ سمجھا اور اپنا فون بند کردیا، تین گھنٹے انتظار کے بعد معظم عباسی ملاقات پر راضی ہوئے، لیکن نتیجہ پھر بھی پارٹی کے حق میں نہ ہوا اور یوں رہنما مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے، معظم عباسی کے فیصلے کا ایک منفی اثر یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے چالیس سال سے پیپلز پارٹی کے وفادار عباسی برادری کے سردار اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسیمبلی بیگم اشرف عباسی کے بیٹے حاجی منور عباسی سے پی ایس 38میروخان سے پارٹی ٹکٹ واپس لے کر سابق ضلع ناظم لاڑکانہ خورشید احمد جونیجو کو دے دی، لیکن اس فیصلے کے بعد منور علی عباسی نے بھی مذکورہ حلقے پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ این اے 205 ڈوکری نصیرآباد بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ اس پر پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار نظیر احمد بگھیو کے خلاف پیپلز پارٹی کے ہی رہنما سابق سینیٹر صفدر علی عباسی الیکشن میں آزاد حیثیت میں مقابلہ کریں گے۔ پی ایس 35 باقرانی پر ق لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے حاجی الطاف حسین انڑ پی پی پی کے امیدوار ہیں، جن کو ایک طرف تو اپنے ہی بھتیجے اور مسلم لیگ ن کے رہنما شفقت حسین انڑ کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے، پی ایس 36 شہر لاڑکانہ ہے جہاں سے ہمیشہ اسپیکر سندھ اسیمبلی نثار احمد کھوڑو الیکشن جیتتے آئے ہیں، تاہم ان کے نارروا رویے اور غیر سنجیدگی کے باعث اس بار لاڑکانہ کی بااثر شیخ برادری پیپلز پارٹی سے ناراض ہوکر فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کر چکی ہے، شیخ برادری کے صدر پیپلز پارٹی کے سابق تحصیل ناظم نظیر احمد شیخ کا دعویٰ ہے کہ شیخ برادری کے 24 ہزار ووٹ جو کہ ہمیشہ نثار احمد کھوڑو کو دئے جاتے تھے، اس بار فنکشنل لیگ کو ہی دئے جائیں گے جب کے ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے ناراض رہنما ڈاکٹر صفدر عباسی اور ق لیگ کی کلپنا دیوی بھی ہیں۔ پی ایس 37پر سابق صوبائی وزیر محمد ایاز سومرو کو پارٹی ٹکٹ دینے کی بجائے بھٹو برادری کے دباو¿ اور انہیں راضی کرنے کیلئے شہید بے نظیر بھٹو کے کزن مرحوم مشتاق احمد بھٹو کے بیٹے محمد علی بھٹو کو پہلی بار پارٹی ٹکٹ دے دی ہے، تاہم وہ اس حلقہ پر پہلی بار الیکشن لڑیں گے، جن کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے رہنما سردار ممتاز علی خان بھٹو کے بیٹے نوابزادہ امیر بخش خان بھٹو سے ہے، جو کہ اس حلقہ پر مضبوط امیدوار تصور کئے جا رہے ہیں، پیپلز پارٹی کیلئے اس حلقہ پر مشکلات اس لئے بھی بڑھ گئی ہیں کیونکہ اس حلقہ پر جلبانی برادری کے چیف سردار علی نواز خان جلبانی نے بھی پارٹی قیادت کی جانب سے ٹکٹ نہ دئے جانے پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے، دوسری جانب حال ہی میں ق لیگ سے وابستہ اور معروف سماجی رہنما سیف اللہ ابڑونے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا، جن سے پارٹی نے ٹکٹ کا بھی واعدہ کیا تھا، لیکن واعدہ وفا نہ ہونے پر انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔یوں یہ حلقہ بھی مختلف نتائج دے سکتا ہے۔ پی ایس 41 پر بھی پیپلز پارٹی کی گرفت مضبوط نظر نہیں آتی، مذکورہ صورتحال کے باعث اس بار پیپلز پارٹی بمقابل پیپلز پارٹی ہی نظر آرہی ہے، جبکہ مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ن، جمعیت علماءاسلام، جماعت اسلامی ، سندھ یونائیٹیڈ پارٹی، سندھ ترقی پسند پارٹی، جمعیت علماءپاکستان کے دیگر جماعتوں سمیت دس جماعتوں کا اتحاد بھی پیپلز پارٹی کیلئے خطرہ انتخابات بنا ہوا ہے۔ اس تمام صورت حال کا اثر خود صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کی نشست این اے دو سو سات پر بھی پڑے گا جس کے مقابلے میں بھٹو خاندان کی ہی غنوی بھٹو اور جے یو آئی کے صوبائی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر خالد محمود امیدوار ہیں این اے دو سو سات میں رتو دیرو کی نشست پی ایس 37 پر اس بار غیر معروف شخصیت محمد علی بھٹو جو کے بھٹو خاندان کے فرد ہیں کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے اور وہاں سے دو بار منتخب ہونے والے پیپلز پارٹی ضلع لاڑکانہ کے صدر و سابق وزیر قانون محمد ایاز سومرو جو کے محمد علی بھٹو کے مقابلے میں قد آور شخصیت ہیں کو این اے دو سو چار پر رکھا گیا ہے محمد علی بھٹو کمزور امیدوار تصور کیے جارہے ہیں جب کے ان کے مقابلے میں ن لیگ کے سردار ممتاز بھٹو کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو امیدوار ہیں اسی طرح این اے دو سو سات میں آدھا حصہ شہداد کوٹ اور سجاول جونیجو تحصیل کا شامل ہے جہاں مگسی برادری انتہائی مضبوط تصور کی جاتی ہے جو کے فریال تالپور سے ٹکٹوں کے معالے پر ناراض ہے جس سے بلاشبہ فریال تالپور کو بھی دھچکہ لگ سکتا ہے۔