امریکی صحافیوں کے تاثرات
ایسٹ ویسٹ سنٹر کے جرنلٹس ایکسچینج پروگرام کے تحت 10 امریکی صحافیوں نے پاکستان کے تین شہروں اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی کا دورہ کیا۔ امریکی صحافیوں میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی نمائند ہ کیلن مشل ہنری‘ دی گزٹ کی نیوز ڈائریکٹر سو میکملن‘ بی بی سی‘ پبلک ریڈیو انٹرنیشنل دی ورلڈ کی پروڈیوسر سونیا نارنگ‘ کرسچن سائنس مانیڑ کی ایشیا ایڈیٹر ‘ چبلسی بروک‘ ٹیکساس منتھلی کی سونیا ہیلسن اسمتھ‘ نیشنل جرنل کی نمائندہ سیکیورٹی امور‘ سارہ سورچر‘ کے جی او ریڈیو سان فرانسکو کی بیٹھ ایلن‘ فری لانس جرنلسٹ کونارڈ ولسن اور لاس ویگاس ریویو جرنل کے جیمز رائیٹ شامل تھے۔ امریکی صحافیوں نے پاکستان میں اہم حکومت شخصیات قبائلی عمائدین‘ صحافیوں‘ سول سوسائٹی کے نمائندوں طالبعلموں اور کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کیں‘ انہیں سخت سیکیورٹی اقدامات کی وجہ سے محدود پبلک مقامات پر بھی لے جایا گیا جہاں انہوں نے پاکستان کے طرز زندگی کا مشاہدہ اور عام لوگوں سے بات چیت بھی کی۔ دورہ مکمل کرکے امریکی صحافی ہوائی‘ ہونولولو واپس پہنچے‘ جبکہ پاکستانی صحافی بھی اس دوران امریکہ کی سرزمین کا دورہ کرکے واپس ہوائی پہنچے جہاں دونوں ممالک کے صحافیوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات بیان کئے۔ ہر امریکی صحافی نے پاکستان کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کیا ۔ ان کی مجموعی رائے میں پاکستانی معاشرہ انہیں تضادات کا شکار نظر آیا۔ انہوں نے سیکیورٹی کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا‘ مگر ان کی مجموعی رائے میں پاکستان اپنے مسائل سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔امریکی پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے گن گاتے نظر آئے ۔امریکی صحافیوں کی انفرادی رائے سے انتخاب نذر قارئیں ہے۔
بیتھ ایلن : پاکستان کے دورے میں میں نے یہ جانا کہ پاکستان ملالہ‘ سلالہ اور اسامہ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے‘ پاکستانی چینلز پر امریکی صدر ہنری کسنجر کے متعلق رپورٹ پیش کی جارہی تھی۔ پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد نے مجھے حیران کردیایہ خوش قمست ملک ہے ‘ 50 فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر ہے ۔ نوجوان موٹر سائیکلوں پر رواں نظر آتے ہیں‘ بڑے شاپنگ مالز میں شاپنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن انہی کی عمر کے لڑکے کچرا چنتے اور بھیک مانگتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
سارہ سوچر : سیکیورٹی بہت بڑا مسئلہ تھا ۔پاکستان ایسٹریم ازم نے بہت متاثر کیا ہے اس سے سوسائٹی میں بھی تقسیم ہوتی ہے کچھ لوگوں نے ڈرون کی حمایت بھی کی کچھ خلاف تھے یہ بات ہمیں کنفیوز کررہی تھی اسی طرح طالبان سے گفتگو کے متعلق بھی رائے عامہ میں تضادات تھے خود طالبان کے اپنے اندر تضادات ہیں۔ جمیس رائٹ : لوگ انڈیا سے تعلقات بڑھانے کے حق میں ہیں لیکن کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسئلے بھی حل ہونے چاہیئے ہر جگہ لوگ یہ بات کرتے تھے کہ ڈیموکریسی بڑھ رہی ہے۔
سونیااسمتھ: لوگ کہتے تھے امریکہ پاکستان ریلشن ایسا کہ کئی سالوں سے شادی ہے پھرطلاق کی نوبت آتی ہے مگرہو نہیںسکتی۔میرے خیال میں پولیس ٹریننگ کی ضرورت ہے ڈی این ٹیسٹ وغیرہ کیلئے سائنٹفک چیزوں کی ضرورت ہے امریلہ کو اس کے لئے مدد کرنی چاہیئے۔ یو ایس لوگوں کی امداد کے لئے جورقم فراہم کر رہاہے اْس کی بہت قدر کی جایتی ہے
بیتھ: پاکستان کی اکانومی مشکل میں ہے مگرپرائم منسٹر مسائل حل کرنے کی Will رکھتا ہے۔
کونارئو: معیشت کی خرابی کی بڑی وجہ سیکیورٹی کی صورتحال ہے باہر والے یہ ہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان محفوظ نہیں اس سے انوسٹمنٹ رکتی ہے۔ غیر ملکی آکر دبئی میں ملتے ہیں بزنس ڈیل کے لئے ہم لمس میں گئے وھاں گفتگو سے معلوم ہوا پاکستان اپنی اکانومی کی امپرو کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اور سیکیورٹی صورتحال بھی بہتربنانے کی کوشش کررہا ہے۔
جیمز: سیکیورٹی بہت بڑا مسئلہ ہے انفراسٹرکچر بہت بڑا مسئلہ ہے اور انرجی کی کمی مسئلہ ہے انڈسٹری میں شمپنٹ لیڈ ہوجاتی ہے ۔ ہائیڈرو الیکٹرک کے ڈیم بنانے چاہیئے۔ ترجیح دینی چاہیئے۔ الیکٹر سٹی کے بغیر اکانامی نہیں چلے گی جاب نہیں ملے گی بے روزگاری ہوگی اور جرائم بڑھیں گے سیکیورٹی کا مسئلہ ہوگا یہ تمام چیزیں آپس میں جڑی ہیں۔
چیلسی: پاکستان کے متعلق میرے تاثر میں تبدیلی آئی ہے بہت سے خواتین و حضرات سے ملی وہ بزنس بڑھانا چاہتے ہیںپاکستانیوں میں بہت پوٹینشل ہے مگر انرجی کی کمی کی وجہ سے کام نہیں کر پاتے۔
کیرل: ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ یو ایس کو پاکستان کے معاشی استحکام کے لئے مدد کرنی چاہیئے میں سمجھتی ہو جو لوگ پاکستان کے ساتھ بزنس کرنا چاہتے ہیں وہ سیکیورٹی کی وجہ سے نہیں جارہے۔ بہت سی کمپنیاں پاکستانی امریکن کو قائل کررہی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بزنس کرو کراچی کی ایک سوفٹ ویئر کمپنی بہت اچھا کام کررہی ہے اس نے اپنی ویب سائٹ پر نیویارک کا نام دیا ہوا ہے۔ ہم نے بہت سنا کہ ٹریڈ کے لئے امریکہ مدد دے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان کو خود بھی محنت کرنی پڑے گی ۔لمس میں یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان سے آم کیوں نہیں منگواتے ؟ایک امریکی کمپنی نے منگوایے تھے مگرشکاگو میں ریڈی ایٹ کیا تو بہت مہنگے پڑے جبکہ انڈیا نے خودریڈی ایٹ کرنے کا پراجیکٹ لگا لیا تو وہاں سے منگوانا سستا پڑتا ہے پاکستان کوبزنس کے لیے لابنگ کی بھی بہت ضرورت ہے۔
سو میکلسن: اسلام آباد میں ہر جگہ اسکو ل دیکھے مگر پرائیویٹ تھے اسکول جانے والے بچوں کی تعداد 50 فیصد یہ یو ایس ایمسی نے کہا ایجوکیشن منسٹرنے کہا 91% جاتے ہیں مگر% 68 اسکولوں میں رہتے ہیں۔ مختلف اعداد وشمار پر حیرت ہے پبلک اسکول بہت خراب حالت میں ہیںمگر پنجاب میں اچھا کام ہورہا ہے ایف سی کالج میں ھائیلی ایجوکیٹڈ خواتین سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا یہ آخری جنریشن ہے جو اسکول سے باہر ہیں۔ خواتین میں مورٹیلٹی ریٹ زیادہ ہے ۔
سونیا: یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پاکستان میں اسمارٹ فون استعمال کئے جارہے ہیں مختلف کاموں میں بہتری کیلئے مثلاً ہیلتھ اور ایجوکیشن کے فروغ کیلئے ایجوکیشن کا ذکر ہو تو ملالہ کا ذکر ہوتا ہے میں نے ملالہ کو نیویارک میں بولتے دیکھا ہے وہ بہت زبردست بولتی ہے لیکن پاکستان میں تعلیمی حوالے سے بہت تضاد دیکھا ہے اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین ہیں یا بالکل ان پڑھ ایجوکیشن منسٹر سے پوچھا مگر ہمارے کئی سوال تشنہ ہی رہے ۔ خواتین میں مورٹیلٹی ریٹ زیادہ ہے ۔صحت کے بہت مسائل ہیںمگر یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ90,000 ہیلتھ ورکرزویمن ھر گھر جاکر کام کر رہی ہیںیہ بڑا زبردست کام ہے۔
کونارڈ: کراچی میں ہم مدرسہ میں گئے ملک کے ہر حصے سے بچے آتے ہوئے تھے 70 فیصد خاندانوں کے لئے یہ بہت اچھاااپشن تھا بچوں کو کھانے کو ملتا ہے تعلیم ملتی ہے ہم نے پوچھا کیا ایجوکیشن لے رہے ہیں تو بتایا گیا کہ دن میں 4 مرتبہ قرآن پڑھتے ہیں ، مذہبی تعلیم کے علاوہ جغرافیہ متھ سائنس بھی پڑھاتے ہیں مگر مجھے حیرت ہے کہ یہ بچے معیشت کی بحالی میں کیسے مدد کرسکتے ہیں جبکہ ان بچوں کو ہم عصر تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔
سونیا: پاکستانی معاشرے میںتضادات غلبہ رکھتے ہیں امریکہ کو دشمن کی پاکستان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں مگر کولمبیا اسٹین فورڈ مین میں تعلیم حاصل کرناچاہتے ہیں۔ اینٹی انڈین ازم کے باوجود انڈیا کا میوزک فلمیں بہت ان ہیںمجھے پاکستان انٹرنسٹنگ لگادوبارہ جانا چاہوں گی۔
بیتھ: پاکستان میں نوجوانوں سے ،اسٹوڈنٹس سے ملے وہ بہت پرجوش ہیں ٹیکنالوجی پاکستان کا فیوچر بننے، جارہا ہے وہ اپنے کسانوں کے لئی بھی موبائل ایپس بنا رہے ہیں۔ ٹائم لگے گا مگر مجھے پاکستان کے لئیے بہت امید نظر آرہی ہے 10 سال پہلے امریکہ میں کوئی انڈیاکو جانتا نہیں تھا۔ اب وہ سیلی کون ویلی میں چھائے ہوئے ہیں ۔
سونیا نارنگ: کراچی میںمیں لیاری گینگ وار والے ایریا میں جا کر نوجوانوں سے ملی ۔یہاں کراچی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ بھی ہیں15سال کے لیاری کے لڑکے کی انگلش بہت اچھی تھی موچی کا بیٹا انجینئر بن رہا تھا لیاری کا ایک لڑکا فلم میکر تھا۔ این جی اوز کام کررہی ہیں نوجوانوں میں کانفیڈنس کا بہت ہائی لیول دیکھا۔
چیلسی: پاکستان کے جرنلسٹس سے بہت متاثر ہوئی ان کی بہادری سے متاثر ہوئے کہ وہ کن حالات مین کام کرتے ہئین۔ عمر چیمہ نے اپنے تجربات بتائے ۔
سوسن کرافیلز: بہت پازیٹو فیلنگ ہے کہ پاکستانی اپنے مسائل سے باخبر ہیں۔ لوگوں میں آپس میں اختلافات ہیں مگر یہ امریکہ میں بھی ہیں۔ اسلام آباد میںہم جہاں بھی گئے ہر جگہ سیکورٹی کا حصار دیکھا لوگوں کو روزانہ تکلیف اْٹھانی پڑتی ہے ہمیںیہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا ،امریکیو ں کو اندازہ نہیں کہ نائن الیون نے پاکستان کو کیسے بدل دیا ہے۔
پاکستان! ملالہ‘ سلالہ اور اسامہ کے علاوہ !
May 02, 2014