او آئی سی کے تحت امن فوجی دستے؟

گزشتہ چند ماہ سے یمن کی جو صورتحال چلی آرہی ہے یہ سب اسرائیل اور مغربی ممالک کی سازشوں کے سبب ہے۔ باغیوں کو اسرائیل میں باقاعدہ ٹریننگ دیکر بھیجا گیا۔ مغربی ممالک کامشن یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک میں دہشت گردی، افراتفری اور انتشار برپا کر کے مسلم ممالک کے قدرتی و سائل پر قبضہ کیا جائے۔ یمن کی موجودہ صورتحال مسلم ممالک کیلئے بہت بڑے خطرے کا الارم ہے۔ ایران ایٹمی قوت بن چکا ہے جب تک امریکہ اور مغربی ممالک نے دوستی کے ہاتھ نہیں بڑھائے تھے ایران کامیابی کے ساتھ اپنی سمت کا تعین کر کے آگے بڑھتا رہا۔ لیکن امریکہ نے اب کوششیں شروع کر دی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ایرانی قوم کو اپنے جال میںپھنسا کر پھر ایران کا حشر بھی وہی کیا جائے جو عراق اور لیبیا کا کیا گیا۔ علامہ اقبال کی بصیرت ایران کے بارے میں یہ تھی ۔
پانی بھی مسخر ہے، ہوا بھی مسخر ہے!
کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پیر بدل جائے!
دیکھا ہے ملکوکیتِ افرنگ نے جو خواب!
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے!
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا!
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے!
جس طرح پینتیس چھتیس برس تک ایران دنیا کی سپر پاور کے حواس پر سوار رہا اگر اب بھی مستقل مزاجی سے ایران ڈٹا رہے تو مسلم ممالک کی سپر پاور کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھر سکتا ہے، بشرطیکہ تمام مسلم ممالک کو اپنا ہمنوا بنا کر ثابت قدمی کا اظہار کرے۔ سعودی عرب اور دیگر تمام ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کر کے بہت ہی مضبوط مسلم بلاک بنایا جا سکتا ہے۔ او آئی سی کے چارٹر میں ضروری ترمیم و اضافہ کرکے او آئی سی کے ادارے کو فعال کردار ادا کرنے پر معمور کیا جا سکتا ہے۔
مغرب کے سازشی گماشتے ایران اور سعودی عرب کو آپس میں ٹکرانے کیلئے کوشاں ہیں۔ ترکی اور دیگر کئی مسلم ممالک کے سربراہان بر ملا کہہ چکے ہیں کہ اہل تشیع اور اہل سنت کی جنگ نہیں بلکہ باغیوں کا ایک گروہ یمن کی حکومت پر قبضہ کر کے سعودی حکومت اور حرمین شریفین پر چڑھائی کا ارادہ رکھتا ہے۔مسلم ممالک کے سربراہان شاید دشمنوں کی زیر زمیںمنصوبہ بندی کا ادراک نہیں رکھتے ورنہ گرد ِدوراں کو بہ آسانی اب بھی روکا جا سکتا ہے۔
او آئی سی کا فورم کس لیے معرضِ وجود میں لا یا گیا تھا؟او آئی سی کے اختیارات میں سوائے نشستن ، گفتن و برخاستن کیلئے ہی کیا؟او آئی سی کے چارٹر میں اقوام ِ متحدہ کے چارٹر کی مانند ملٹری ونگ اور امن قائم رکھنے کیلئے فوجی دستوں کی ضرورت کیوں نہ محسوس کی گئی؟ او آئی سی مغربی ممالک کا قائم کردہ مسلم ممالک کے عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کیلئے ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیا کشمیر کا مسئلہ اور فلسطین کا مسئلہ آج تک او آئی سی حل کرا سکا ہے؟کیا او آئی سی کے ادارہ نے مسلم ممالک کے سربراہان اور امرائو روسا کو مجبور کیا ہے کہ مغربی ممالک کے بنکوں میںجو رقوم مذکورہ لوگوں کی ہیں وہ رقوم وہاں سے واپس نکال کراو آئی سی کے بنک میں جمع کروائی جائیں؟کیا او آئی سی نے مسلم ممالک کے سربراہان کو اس امر کیلئے راغب کیا ہے کہ تمام مسلم ممالک آپس میں تجارت کریں اور جس ملک کو ڈاکٹرز، انجینئرز، ٹیکنیشنز اور لیبر کی ضرورت ہے وہ صرف دیگر مسلم ممالک سے حاصل کریں؟ کیا او آئی سی نے کوئی ایسا فنڈ قائم کیا ہے جس کے ذریعے مسلم ممالک کی زرعی ترقی، قدرتی وسائل کی تلاش ، انڈسٹری، شعبہ تعلیم، شعبہ صحت اور عوامی ضروریات کے منصوبہ جات کیلئے کسی ملک کی ا مداد یا بلا سود قرض فراہم کرنے کیلئے کوئی عملی اقدام کیا جا سکے؟کیا او آئی سی نے ا من فوج کے قیام کے ذریعے مسلم ممالک کے آپس کے تنازعات کے حل کیلئے آج تک کسی کونسل یا کمیشن کے قیام کا بندوبست کیا ہے؟کیا او آئی سی نے ہر سال مسلم ممالک کے سربراہان کی باقاعدہ کانفرنسوں کا کوئی اہتمام کیا ہے؟ کیا او آئی سی کے ادارہ کا کردار مسلم ممالک کیلئے بطور Umbrellaآج تک سامنے آیا ہے؟ مسلم ممالک کے تمام سربراہان بہت سمجھدار ہیں لیکن جانے کیوں او آئی سی کو بطور ایک مضبوط ادارہ اور طاقتور فورم کام نہیں کرنے دیا گیا؟عراق کو ایران کیخلاف جنگ میں جھونکا گیا پھر کویت پر حملہ آور ہونے کیلئے آمادہ کیاگیا اور آخر میں عراق کا سر کچل دیا گیا۔ او آئی سی نے ان معاملات میںکیا کردار ادا کیا؟
مسلمان اپنے آبائو اجداد کی حکمت و دانش فراموش کر چکے ہیں۔ جب مغربی فلاسفروں کو یونانی فلسفہ کی دانش سے مایوسی کا سامنا ہوا تو انہوں نے اسلامی حکمت و دانش اور فلسفہ کی جانب رجوع کیا انہوں نے دیکھا کہ اسلامی حکمت ہر معاملے میں متحرک ہے جامد نہیں تو یورپین اور جرمن دانشوروں نے اسلامی لٹریچر کا ترجمہ کر کے اپنی اقوام کو آگے بڑھنے کی دعوت دی۔اگر ابن ِ عربی اور اُنکے پیروکار مولانا رومی اور علامہ اقبال کا کردار ادا کرتے تو ملت ِ اسلامیہ کے اعضاء مضمحل نہ ہوتے۔
بہر حال دنیا کی جولیڈر شپ نبی آخر زمان صلعم کے ذریعے ملت ِ اسلامیہ کو ودیعت کی گئی تھی بنو عباس اور بنو امیّہ کے دور ِ حکومت میں اگر وہ زوال پذیر نہ ہوتی تو ہو سکتا ہے ان ادوار کے بعد کے زمانے میں بھی مستحکم رہتی۔ علمائے کرام اُمت کو متحرک رکھنے کے بجائے گدھا اور کوا حلال ہیںیا حرام ؟ اس بحث میں عوام کو الجھانے کے بجائے قرآن و سنت کا دامن تھامے رہتے اور حکومت ِ وقت کے منظور ِ نظر بننے کے بجائے پیغمبرصلعم کے پیروکار رہتے تو عزت وشان اُن کی قدم بوسی کرتیں۔ مثل مشہور ہے کہ ’’جس نے شاہ کا بننے کی کوشش کی وہ تباہ ہوا مگر جس نے خدا کا بننے کی کوشش کی وہ شاہ ہوا‘‘۔
عنوان زیر بحث یمن کی موجودہ صور تِحال اور مسلم ممالک کیلئے خطرات کے خدشات ہے لیکن مذکورہ عنوان سے منسلک مسائل کی جانب قلم چل پڑا ۔ یہاں علامہ اقبال کے ہی دو مصرعوں کو حالات ِ حاضرہ کے رنگ میں ڈھال کر درج کرنا ضروری ہے۔ ’’نہ سمجھو گے تم مٹ جائو گے اسلام کا نام لینے والو ۔تمہاری بربادیوں کے مشورے آسمانوں میں‘‘ مشرقی ایوانوں میںیہ خطرہ لاحق ہے کہ یمن میں لگنے والی آگ تمام مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میںلے لے گی۔ پھر نیٹو سیٹو حرکت میں آکر مسلمانوں کی نسل کشی شروع کر دینگے۔ اور سوائے پچھتاوے کے ملت ِ اسلامیہ کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔ جو کردار ہمارے دیہات میں بدمعاش کا ہے وہی کردار دنیا میں سپر پاور کہلانے والے ملک کا ہے۔ اگر اب بھی مسلم ممالک خواب ِ غفلت سے بیدار نہ ہوئے تو پھر اسلام اور اسلامی ممالک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ جوں جوں روحِ اسلام سے مسلمان دور ہوتے جا رہے ہیں۔ غیرمسلم تہذیب و تمدن کے سائے مسلم ممالک پر چھاتے جا رہے ہیں۔ مسلمان کی فطرت میں حقائق شامل کر دیئے گئے تھے مگر امت ِ محمدیہ صلعم کہلانے والے مغرب زدہ ہو رہے ہیں۔ عشقِ حقیقی میں مگن ولی اللہ کو جس طرح ابلیس‘ عشق مجازی کی جانب راغب کر دیتا ہے ہم ایسی حالت کی جانب تیزی سے قدم بڑھا رہے ہیں اقبال فرمان ِ ابلیس بنام سیاسی فرزندان کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں:۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
کیا آج یہی کچھ نہیں ہو رہا؟کیا پاکستان اور ترکی کی کوششوں کے رائیگاں جانے کا خطرہ پیدا نہیں ہو چکا؟کیا پاکستان کو امریکی اشارے پر کسی خفیہ ہاتھ نے عملی کردار ادا کرنے سے نہیں روک دیا ؟جس طرح 1910ء کے بعد جاپانی حکومت اپنے ہی ایک ادارے کے سامنے کٹھ پتلی بن گئی تھی حکومت ِ پاکستان بھی دن بدن وہی صورت اختیار نہیں کرنے جا رہی؟
آج سے پچاس برس پیشتر کے اقبال کے افکار کس طرح سچائی پیش کر رہے ہیں۔ وہی یمنی جو مکہ پاک اور مدینہ پاک کے علاوہ سعودی عرب کے تمام شہروں میںسعودی شہریوں کی حیثیت سے زندگی بسر کررہے تھے آج غیروں کے اشاروں پر چلتے ہوئے نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری مسلم اُمہ کیلئے سخت خطرات کے الارم کے روپ میں سامنے آگئے ہیں۔ ایسے حالات میں ترکی اور ایران کا کردار بہت ہی مثبت ہو گا تومغرب کی لگائی گئی یہ آگ ختم ہو سکتی ہے ورنہ مغربی دنیا کی خواہش اور کوشش کے مطابق تمام مسلم ممالک اس کی لپیٹ میں آجائینگے۔ ایران پر جو الزام عائد ہو رہا ہے کہ وہ باغیوں کی پُشت پناہی کر رہا ہے یہ ایران کی شان کیخلا ف ہے۔ ایران کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کروانی چاہئے کہ وہ ہرگزایسا نہیںکر رہا۔ سعودی عرب کے تمام ہمسایہ ممالک کو مل کریمن اور سعودی عرب میں مفاہمت کروانی چاہئے تاکہ جلد از جلد حالات نارمل ہو جائیں اور اسرائیل کی ابلیسی سازش ناکام ہو جائے۔ پروردگار عالمین سے مخاطب ہو کر علامہ فرماتے ہیں۔
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تونے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس!

ای پیپر دی نیشن