افغانستان میں.... بھارتی مشاورتی رول ختم

May 02, 2015

سید ناصر رضا کاظمی

دوسروں کو اپنی مصیبتوںکا ذمہ دار ٹھہرانے سے اور کچھ نہیں ہوتا مگر اپنے ہی اردگردمایوسی اور نفرت کا ماحول خود بخود پیدا ہوجاتا ہے اگر اپنے آپ کو اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار مان لیا جائے تو پھر کامیابی وکامرانی کی جانب سفر سمجھئے یوں عملاً بات پتھر پر لکھی ہوئی تحریر ثابت ہوجاتی ہے کہ آپ نے اپنی مصیبتوں کے ازالہ کا راز پالیا ہے اگر ہم اِس بیانیہ صورتحال میں کل کے افغانستان کو دیکھیں جب وہاں حامد کرزئی کی شکل میں غالباًسات آٹھ سال تک ایک ایسی حکومت رہی جو سر تاپا کرپشن میں لتھڑی رہی مگر اُس سابقہ کرزئی حکومت نے اپنی آستینوں میں چھپے ہوئے سانپوں کا سرکچلنے کی بجائے اُن کی خوب حوصلہ افزائی کی جنہوں نے نہ صرف افغانستان کے اندر بلکہ افغان سرحدوں کے پار پڑوسی ملکوں میں بھی دہشت گردی کے بیج بوئے بلکہ خوب دل کھول کر انسانیت کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی سابقہ کرزئی حکومت اور اُن کے حالی موالیوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے امریکی ڈالرز سمیٹنے شروع کردئیے نجانے کیوں امریکا نے سب کچھ جانتے ہوئے اپنی آنکھیں موند رکھی تھیں اب افغانستان میں صدر اشرف غنی کی صورت میں افغانستان اور افغان عوام کےلئے کچھ کرگزرنے کا عزم لیکر نئی عوام دوست حکومت برسر اقتدار ہے گز شتہ دنوں صدر اشرف غنی نے صدارت کا عہد سنبھالنے کے بعد پہلی بار بھارت کا دورہ کیا صدر غنی نے کمال سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پیش رو حامد کرزئی کی دوغلی سفارت کاری کی راہ نہیں اپنائی افغانستان کا صدر بنتے ہی اُنہوں نے پہلے اپنے پڑوسی ملکوں پاکستان ‘ ایران اور چین کا دورہ کرنا ضروری سمجھا اپنے براہ ِ راست پڑوسی ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو اعتماد بخشنے اور اُنہیں کسی قسم کی بدگمانیوں کی نظروں سے بچانے کیلئے خصوصی توجہ دی گزشتہ دنوں جب وہ بھارت گئے تو اِس سے قبل ہی صدر اشرف غنی اپنے تینوں پڑوسی ملکوں کا دورہ کرچکے تھے اُنہیں اپنے اعتماد میں لے چکے تھے یہ ہی نہیں بلکہ ایران ‘ پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کو یہ یقین دلا چکے تھے کہ افغانستان کی سرزمین کسی پڑوسی ملک کےخلاف استعمال نہیں ہونے دی جائیگی یعنی دوسرے لفظوں میں یہ سمجھ لیا جائے کہ سابقہ کرزئی ادوار میں خصوصاً افغان سرزمین سے پاکستان کیخلاف جو دہشت گرد عناصر برآمد ہوتے ہیں اب حکومت ِ افغانستان اُن کے گرد اپنا گھیر ا تنگ کرےگی عالمی سفارتی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ نئی افغان حکومت کے سربراہ نے نئی دہلی جانے سے قبل اسلام آباد اور بیجنگ کا دورہ کرکے اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کی سمت واضح کردی ہے جبکہ یہ اہم نکتہ حامد کرزئی کی سمجھ نہیں سمایا جو لگ بھگ ہر سال بھارت ’یاترا ُ ضرور کیا کرتے تھے، ادھر افغانستان میں نئی حکومت قائم ہوئی ،ادھر بھارت میں اقتدار کی باگ ڈور نریندرمودی جیسے شخص کے ہاتھوں میں آگئی ،مودی سوچ رہا ہو گا ’ہائے کرزئی میں آیا تو تو چلا گیا ،کیا کیا ارمان دل کے دلوں میں رہ گئے ‘ واقعی مودی بالکل صحیح سوچ رہا ہے، ہمارے ایک طرف مغربی سرحدوں کے پار کرزئی ہوتا اِدھر مشرقی سرحدوں کے پار مودی کے ہاتھوں میں بندر کی رسی اور ڈگڈگی ہوتی جنوبی ایشیا کا امن وامان اب تک داو¿ پر لگ چکا ہوتا یہ خدا کے کرشمے ہیں جو اپنی بہترین تخلیق ’انسان ‘ کے تحفظ کیلئے مسلسل انجام دیتا رہتا ہے بھارت نے مسلسل بھارت نوازی کے انعام کیلئے کرزئی حکومت کو صرف 2ارب ڈالر دئیے تھے جن میں سے وہاں پر کچھ رقم سڑکوں کی تعمیر پر لگی ہوئی اور چندایک پل بنے ہونگے اور باقی رقم حامد کرزئی کا بھائی احمد کرزئی لیکر فرار ہوچکا ہوگا۔ معتبر اطلاعات یہ ہیں کہ صدر اشرف غنی کی حکومت نے بھارت کی جانب سے کوئی واضح جواب نہ ملنے کے باعث اب ہتھیاروں کی فراہمی کی ا پنی درخواست پر اصرار ترک کردیا ہے ایسی انتہائی بدگمانی اور بے اعتمادی کے باوجود نریندر مودی کی ہٹ دھرمی کا انداز تو لگائیے جسے آجکل گوادر پورٹ تک چین کی رسائی نے شدید بخار میں مبتلا کردیا ہے گوادر پورٹ کی ترقی اب بھارت سے ہضم کرنا بہت مشکل ہوگئی ہے، پاکستان چین اقتصادی راہداری کی راہ میں عملاً روڑے اٹکانے کیلئے حکمران جماعت بی جے پی اپنی گائیڈ لانر آر ایس ایس کے اشارے پر پاکستان سے دشمنی کرنے کیلئے پھر سے سرگرم اور پر جوش دکھائی دیتی ہے اِسکا ثبوت دیتے ہوئے بھارت نے افغانستان کو گوادر کی بجائے ایرانی بندر گاہ’ چاہ بہار ‘کا راستہ دکھادیا ہے، چاہ بہار پورٹ کو گوادر کے مقابلے میں گہرے پانیوں کی بندر گاہ بنانے کیلئے اب بھارت نے افغانستان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے تمام مالی وسائل خرچ کرنے کا باضابطہ پابند رہے گا28 اپریل گزشتہ منگل کو افغانستان کے صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کی ملاقات ہوئی جس میں افغان صدر نے کہا کچھ جس کا جواب مودی نے نہیں دیا افغان صدر نے کہا تھا کہ انتہا پسندوں کو شکست دینے کیلئے افغانستان کو علاقائی تعاون کی ناگزیر ضرورت ہے ہم افغانستان کو دہشت گردوں کا قبرستا ن بنانا چاہتے ہیں اِ س سلسلے میں ہمیں پاکستان ‘ بھارت اور دیگر ہمسایہ ممالک کی ضرورت ہے اُنہوں نے کہا کہ دہشت گرد بُرے یا اچھے نہیں ہوتے بلکہ سب دہشت گرد بُرے ہوتے ہیں اِن میں تمیز نہیں کی جاسکتی ہمیں دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے اب ایک متفقہ علاقائی سوچ اپنانا ہوگی افغان صدر نے کہا افغانستان جغرافیائی لحاظ سے ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے جہاں جنوبی ایشیائ، وسطی ایشیاءاور مغربی ایشیاءآکر ملتے ہیں ہم اِن تینوں خطوں کےلئے مستحکم مرکزی راہداری بن سکتے ہیں جس سے ہماری معیشت مستحکم ہوگئی ہم چاہتے ہیں وسطی اور جنوبی ایشیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کےلئے اِن خطوں کو پائپ لائنوں کے ذریعے جوڑدیا جائے جو کابل سے ہوکر گزرے ہم فضائی رابطوں میں بھی اضافہ چاہتے ہیں مطلب یہ کہ افغان صدر نے بھارتیوں پر واضح کردیا کہ اُنہیں خطہ میں حقیقی امن چاہیئے تاکہ کوئی بیرونی ملک اپنی ’جاگیر ‘ نہ سمجھے یعنی اب بھارت کا مشاورتی رول افغانستان میں نہیں رہے گا یہ بہت بڑی کامیابی ہے افغانستان اور افغانی عوام کی ۔

مزیدخبریں