جامعہ کراچی کے اسکالرڈاکٹرشکیل اوج کے دن دہاڑے بہیمانہ قتل اور سماجی کارکن ¾روشن خیا ل دانشور خاتون سبین محمودکی سرراہ موت کاغم ابھی تازہ تھا کہ ایک اوربری خبرنے دل دہلادیا۔ ہمارے صحافی دوست اورشعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کے ہردل عزیز استاد ¾اسسٹنٹ پروفیسر وحید الرحمٰن المعروف یاسررضوی بھی گھر سے جامعہ جاتے ہوئے اپنی ہی گلی کے کونے پر دن کی روشنی میں گولیوں سے بھون دئیے گئے۔موٹر سائیکل سوار قاتلوں نے چھ گولیاں انکے بدن میں اتاردیں اور موت کی تصدیق کے بعد جائے واردات سے فرار ہوگئے۔قتل کی یہ واردات کوئی انوکھی واردات نہیں تھی ¾وہی روایتی فلمی انداز ¾گلی سے اچانک موٹرسائیکل سوار نمودار ہوتے ہیں اورٹھاہ ٹھاہ اندھا دھندگولیاں برساتے ہیں اورآرام سے گلیوں ہی میں روپوش ہوجاتے ہیں۔کراچی میں امن قبرستان کی خاموشی کی مانندہے ۔ چندروزکی خاموشی کے بعد کراچی ایک بارپھر اندھی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھتاہے۔ دوعشروں سے مستقل قیام امن خواب بن کر رہ گیا ہے۔ کراچی میں خونریزی کی انتہا نہ رہی تو2013ءمیں مقتدرحلقے سرجوڑکربیٹھ گئے اورقیام امن کے کئی منصوبوں پرغورکے بعد وزیراعظم میاں نوازشریف نے کراچی رینجرزکے حوالے کر دیا اور یہاں ایک ایسے آپریشن کا آغاز ہواجس کی صحیح سمت کا ابھی تک تعین نہیں ہوسکا۔ اس آپریشن پرتمام سیاسی جماعتوں اورسندھ حکومت نے بالاکراہ حکومت کو حمایت کایقین دلایا۔ میں آپریشن کے آغازمیں گورنر ہاﺅس کے اہم اجلاس کی بریفنگ میں موجودتھا ¾ جہاں ملک بھر سے پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاکی نمائندہ شخصیات شریک تھیں۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے مکالمے میں وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا تھا کہ کراچی پاکستان کااقتصادی دارالحکومت اورمنی پاکستان ہے ۔ منی پاکستان میںبدامنی ¾بھتہ خوری ¾ اغوابرائے تاوان کی وارداتوں اوردہشت گردی کی وجہ سے اس کا چہرہ مسخ ہورہاہے ¾سرمایہ کارکراچی کارخ کرنے کوتیار نہیں ہیںجس سے ملک کی اقتصادی صورتحال پرمنفی اثرات پڑرہے ہیں۔ انہوں نے نویدسنائی تھی کہ وہ کراچی کاامن اور روشنیاں لوٹا کرہی دم لیں گے۔ انہوں نے کہاتھا کہ یہ آپریشن سیاسی مداخلت سے پاک اور بلاتخصیص ڈاکوﺅں‘ بھتہ خوروں ¾ سفاک قاتلوں ¾قانون شکن افراد اور دہشت گردوں کے خلاف ہوگا۔ شہرنگاراںکراچی چند برسوں سے مافیاﺅں کا شہربن چکاہے جہاں قبضہ گروپ ¾مذہبی انتہاپسند ¾انڈرورلڈ ¾غیرملکی گماشتے ¾ کرائے کے قاتل ¾ ذاتی دشمن ¾جتھہ بندجنگجو اورمبینہ طورپرسیاسی جماعتوں کے اسلحہ بردارگروہ سرگرم عمل ہیں اور کراچی کا سماجی اورانتظامی بندوبست ان کے مقابلے پربے بس ہے یا عملاًانکے ہاتھوں یرغمال بن چکاہے ۔کون کس کاہدف ہے اور کس کی گولی کا نشانہ بن رہاہے ¾پتہ چلانامشکل ہوگیا ہے۔بس گولیاں چل رہی ہیں اورلاشیں گررہی ہیں۔ ان قانون شکن جتھوں کےخلاف قانون نافذ کرنےوالوں کی کارکردگی انتہائی غیرموثر ہے۔ نامعلوم قاتل پے درپے علم وہنر سے معمورسینوں میں گولیاں اتارکر ¾ اجالوں پرتاریکی کی دبیز چادرڈال کر کہیں روپوش ہوجاتے ہیں۔ریاست ¾ اس ملک کے ادارے روشن چراغ گل کرنے والوں کاکھوج لگانے میں ناکام رہے ہیں۔کبھی اس قتل وغارت کا ذمہ دار کسی سیاسی جماعت کو ٹھہرا دیاجاتا ہے ¾ کبھی یہ ملبہ غیرملکی ایجنسیوں پرڈال دیاجاتاہے توکبھی کوئی انتہاپسندتنظیم موردالزام ٹھہرا دی جاتی ہے۔ان سنگین حالات میں متعلقہ ادارے نہ تو اپنی ذمہ داریاں کماحقہ محسوس کر رہے ہیں اورنہ ہی اپنے فرائض بطریق احسن پورے کرسکے ہیں۔ پاکستان کے روشن خیال لوگوں ¾ سوچنے والوں ¾ امن کی زبان بولنے والوں ¾وطن کے گیسو سنوارنے والوں اور ہنرمندوںکے خون میں ہاتھ رنگنے والے کون لوگ ہیں ؟ان کے عزائم کیا ہیں اوران کی پشت پناہی کون کررہاہے ¾ کوئی کچھ بتانے کوتیارنہیں ہے۔کیا وزیراعظم میاں نوازشریف ¾وفاقی حکومت اورسندھ حکومت کے ذمہ دار جواب دیں گے کہ کراچی میں قیام امن کے لئے ان کے دعووں کوکون خاک میں ملارہاہے؟ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ اس بے اماں موسم میں پاکستان کاسوچنے والادماغ اور دھڑکتادل پاکستان میں اندھی گولیوں کا نشانہ بن رہاہے یابڑے پیمانے پربیرون ملک ہجرت کررہاہے۔کراچی میں لاقانونیت کے تازہ شکار پروفیسر وحید الرحمٰن شیعہ تھے نہ سنی ¾محض انسان تھے اورسادہ سے مسلمان ¾ جو دن رات انسانیت کی خیروسلامتی کیلئے سرگرم عمل تھے۔ان کا دل پاکستان کے مقہور اور مجبور لوگوں کیلئے دھڑکتاتھا۔وہ ملک کوغربت ¾ناانصافی اورجہالت سے نجات دلانے کے اسوہ پرعمل پیرا تھے۔صحافت میں خودکوناموزوں سمجھاتوپیشہ پیغمبری معلمی اختیارکر لیا ۔ وہ جامعہ کراچی کے اپنے ہم پیشہ اساتذہ اورطلبہ طالبات میں یکساں مقبول تھے۔ان کی ناگہانی موت پرکراچی پر ملال کی فضاطاری ہے۔مولاناجلال الدین رومیؒدنیابھر کے عاشقوں کے امام ہیں ¾انکی شہرہ آفاق ضخیم تخلیق مثنوی مولانائے روم ¾جمالیات کے دلداروں کیلئے ایک نصاب کی حیثیت رکھتی ہے۔اپنی مثنوی کے ایک باب میں رومی سرکار لکھتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہارے کیسے کیسے دوست تھے جوخودکو بہت قوی سمجھتے تھے لیکن وہ کہاں گئے ؟ اگرتم سے پوچھاجائے کہ وہ کہاں گئے توتم کہو گے کہ مرگئے ¾فناہو گئے۔انکے جانے کے بعد تم اس طرح تنہارہ گئے جس طرح کارواں کے جانے کے بعد پڑاﺅپر الاﺅرہ جاتا ہے۔“ اسکالر ڈاکٹر محمد شکیل اوج ¾خاتون سماجی رہنماسبین محموداورمعلم پروفیسر وحیدالرحمٰن اب ہمارے درمیان نہیں رہے ¾عاشقوںکا کارواں جاچکا ¾خالی پڑاﺅمیں آخری ہچکیاںلیتا الاﺅوسوسوں میں گھری زندگی کےلئے بہت سے سوالوں کے جواب مانگ رہاہے ¾ہمیں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے ہیں ¾ قبل اسکے کہ کوئی اورشکیل ¾ کوئی اورسبین اورکوئی اور وحید کسی اندھی گولی کا لقمہ بنے۔