تیرے کعبے کوجبینوں سے بسایا ہم نے

یہ 1992 کی بات ہے کہ راقم الحروف رابطہ عالم اسلامی کے ایک اجلاس میں سعودی عرب گیا‘ آزاد کشمیرکے وزیراعظم سردار محمد عبدالقیوم کے وفد میں چند اہم شخصیات کے علاوہ ائر مارشل (ر) ایاز احمد خان بھی تھے۔ وزیراعظم صاحب نے ہم دونوں کو یہ فریضہ سونپا تھا کہ دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین سے مذاکرات کرنا اور انہیں مسئلہ کشمیر پر لٹریچر فراہم کرنا جو کشمیر لبریشن سیل مظفرآباد نے شائع کیا تھا ہمارے قیام کے دوران سعودی عرب کی اہم شخصیات سے مذاکرات اور ملاقاتوں کے علاوہ کشمیری مقیم مکہ معظمہ سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ گورنر مکہ نے ہمارے وفد کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں اس وقت کے امام کعبہ شیخ ابن سبیل مرحوم نے بھی شرکت فرمائی‘ مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ میں انکے ساتھ والی نشست پر تھا اور ہم کافی دیر تک مسئلہ کشمیر اور اتحاد بین المسلمین پر گفتگو کرتے رہے وہ بڑے انہماک سے میری باتیں سنتے رہے‘ وہ بڑے خوش اخلاق انسان تھے 25 اپریل 2015 ءکا دن بڑا خوش نصیب ہے کہ آج امام کعبہ ڈاکٹر شیخ خالد الغامدی پاکستان میں جلوہ افروز ہیں‘ آپ نے لاہور میں بحریہ ٹا¶ن کی گرینڈ جامع مسجد اور پھر شاہی مسجد لاہور میں نماز پڑھائی‘ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ بھی تشریف لے گئے۔آج دنیائے اسلام میں نہ ہی کوئی جمال الدین افغانی ہے نہ ہی محمد عبدہ ہے نہ ہی کوئی کسی ہے نہ ہی شاہ ولی اﷲ دہلویؒ ہے نہ ہی مجدد الف ثانیؒ ہے اور نہ ہی ڈاکٹر علامہ اقبالؒ ہے جو اتحاد بین المسلمین اور احیائے اسلام کیلئے پرچم وحدت بلند کرے۔ امام خانہ کعبہ ڈاکٹر خالد الغامدی کی باتوں میں خلوص بھی تھا درد بھی تھا۔ دانش بھی تھی اور وہ عظمت و قوت اسلام کیلئے بے قرار بھی نظر آئے۔ انہوں نے اسلام کو دین عدل و انصاف قرار دیا۔ میری دلی خواہش ہے کہ وہ فقہی‘ مسلکی‘ تاریخی اور جغرافیائی تعصبات میں غرق مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں اور انہیں اقبال کا یہ پیغام سمجھائیں ....

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتا¶ تو مسلمان بھی ہو
شاہی مسجد کے امام مولانا عبدالخبیر آزاد میرے دیرینہ دوستوں میں سے ہیں۔ گزشتہ ماہ تاجکستان کے سفیر شیر علی جانانوف کی دعوت پر ہوٹل سرینہ اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔ وہ ایک مدبر شخصیت ہیں انہوں نے امام کعبہ کو خطاب کی شاہی مسجد لاہور میں دعوت دی جس میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے جید علماءکے علاوہ عیسائی نامور پادری بھی موجود تھے۔ اسلام نے مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر بہت زور دیا ہے۔ ممتاز کالم نگار اسداﷲ غالب اپنے کالم بعنوان ”سعودیہ کا ہائی پروفائل دورہ“ میں رقم طراز ہیں۔ ”کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اہل سنت اور اہل حدیث کی مساجد اور مدرسوں کے علاوہ امام بارگاہوں اور چرچوں میں بھی جائیں۔ سعودی عرب کو ایران سے شکایت ضرور ہے مگر پاکستان کے اہل تشیع ایرانی نہیں پاکستانی ہیں پاکستان میں ہر مذہب‘ قوم اور فرقے کے لوگ بستے ہیں“ اسی طرح بریلوی سنیو کے رہنما ثروت قادری نے بھی بیان دیا ہے کہ خانہ کعبہ اور گنبد خضریٰ سے ہمارا ایمانی اور روحانی رشتہ ہے۔ امام کعبہ کو سب مکاتب فکر کی عبادت گاہوں میں جانا چاہئے تھا۔ میری رائے میں شاید انکے پاس وقت کم اور مصروفیات زیادہ تھیں۔امام کعبہ پر صرف دیوبندی اور اہل حدیث کا ہی حق نہیں مسالک جدا جدا سہی لیکن دین تو سب کا مشترکہ ہے امام کعبہ ہم سب کا مشترکہ اثاثہ ہےں تمام کلمہ گو مسلمانوں کا اُن پر حق ہے اس سلسلے میں ممتازعالم دین مفتی منیب الرحمٰن ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ کراچی میں ایک کانفرنس میں سعودی وزیر مذہبی امور کو کچھ ملویوں نے گھیر لیا اور دھکم پیل ہوئی اور اُنھیں عرضیاں پیش کیں صاف ظاہر ہے کہ یہ عرضیاں اپنے اپنے مدرسوں کی مالی امداد کے بارے میں ہی ہوسکتی ہیں بقول حافظ شیراز
واعظاں کیں جلوہ برمحراب و منبری کنند
چوں بخلوت می روند آہ کار دےگری کنند
پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کا مارشل لاءنہیں کہ امریکی وزیر خارجہ کی ایک فون کال پر ملک کو مسلسل عذاب میں دھکیل دیاجائے ان فوجی آمروں نے اس ملک کا جو حال کیا ہے وہ ایک سابق فوجی جرنیل اور حالیہ سیاست دان لفٹیننٹ جنرل عبدالمجید ملک کی کتاب بعنوان ”ہم بھی وہاں موجود تھے“کا مطالعہ کرنے کی زحمت گوارا کریں اس کتاب میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں عسکری حکومتوں نے جمہوریت پروان نہیں چڑھنے دی جس کے سبب آج تک ہم تباہی و بربادی کی اتھاہ گہرائیوں میں لڑھک رہے ہیں وزیر اعظم پاکستان کا سعودی عرب کا حالیہ دورہ دونوں ممالک میں تعلقات کی استواری اور بہتری کےلئے نیک شگون ہے مصالح اور ثالثی کا کردار اداکریں جلتی آگ پر پانی ڈالےں تےل نہ چھڑکیں یمن کی اندرونی خانہ جنگی کا سیاسی حل تلاش کریں بصورت دےگر استعماری قوتیں مسلمان ممالک کو لڑانے کا منصوبہ بنا چکی ہیں پاکستان کے عوام کی آواز پارلیمان ہے نہ کہ کسی خاص مسلک کے چند علماءجو کانفرنس کررہے ہیں اور ریلیاں نکال رہے ہیں اور جیبوں میں بقول مفتی منیب الرحمٰن درخواستےں لئے پھر رہے ہیں جو پاکستانی دیار غےر میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں انکی ذہنی ابتری کا عالم دیکھنا ہوتو صباحت مشتاق کے افسانوں کے مجموعہ”اعتراف“کو پڑھےے۔ ”جو قومیں اپنے ذرائع پر زندہ نہیں رہتےں ہے ان کا شمار زندہ قوموں میں نہیں ہوتا۔حرمین شریفین کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں یہ اقتدار کی جنگ ہے پاکستان کو اس سے دور رہنا چاہیے۔

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

ای پیپر دی نیشن