”دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے؟“ آہ !!!

May 02, 2016

نعیم مسعود

مان لیں

فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
چونکہ میں عام آدمی ہوں.... چنانچہ کرچی کرچی ہو کر بکھر گیا ہوں! کہاں کہاں سے حروف میں معافی تلاش کروں‘ کہاں لفظوں میں عمل ڈھونڈے کوئی؟ کس کے جملوں میں اور عملوں کے درمیان تصادم کا سماں نہیں؟ کہاں ہے خواجگی میں بندہ پروری؟ میں کس کس در پر دستک دوں مسیحائی کی خاطر! کوئی بتا دے کہ واقعی یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے؟ ایوانوں میں خودی کا سرِنہاں لا الہ الا اللہ ہے یا حکمرانوں میں‘ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ؟ ملا کی ”بزمِ سیاست“ کہاں سکھاتی ہے آداب خداوندی؟ مجھے جانا ہے وہاں کہ جہاں رہبر کی محفل میں ہے خلوتوں میں مصطفائی اور جلوتوں میں کبریائی۔ جو کہتا ہے کہ‘ مجھے ہے حکم اذاں بتا تو سہی کہاں بستا ہے‘ کہاں رہتا ہے وہ؟ یا پھر میری مان لے کہ‘ خالی ہے کلیموں سے کوہ و کمر!!! جگہ جگہ پر کھلونے دے کر بہلایا گیا ہوں.... بیوروکریٹس اپنے آپ کو آفاقی سمجھتا ہے۔ سیاستدان ہر چیز پر اپنے آپ کو قادر سمجھتا ہے۔ یونیورسٹی میں بیٹھا وائس چانسلر دانش گاہ کے چپے چپے پر ملکیت کا دعویدار ہے ذمہ داری کا نہیں۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی حکمرانی ایسے ہے جیسے کسی بے بس و بے کس علاقوں میں ڈاکو¶ں کی راج دھانی ہو۔ مدارس میں اسلام کی دکانداری‘ سیاستدانوں میں جمہوریت فروشی‘ غنڈوں میں مناپلی‘ قانون والوں کا اپنا دھندہ‘ کوئی نظریے‘ کوئی اقبال اور کوئی قائد کو برائے فروخت سمجھتا ہے۔ قرارداد مقاصد کہاں ہے۔ کہاں ہے آئین کس کیلئے ہے؟ میرے لئے ہو سکتا ہے اور بھی آئینی دفعات ہوں لیکن 7 تا 28 تک کی دفعات کیا میرے زخموں‘ میری کم فہمی‘ کم علمی اور حق تلفی پر ماتم کرنے کیلئے بنائی گئیں؟
کبھی اے حقیقت منتظر! نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
قارئین باتمکین! میں مایوس نہیں ہوں کیونکہ مایوسی گناہ ہے۔ مگر عام آدمی کا کتھارسس لکھ رہا ہوں۔ میاں نوازشریف کی تعریف و توصیف تو سب لکھتے ہیں۔ وزرائے اعلیٰ کے قصیدے بھی سبھی لکھتے ہیں۔ سارا قلم قبیلہ زرداری‘ مزاری‘ لغاری‘ فنکاری‘ راج دلاری کی تو روز بلے بلے کرتا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ سیدھی سی بات ہے حصہ ملتا ہے۔ میاں صاحب کی پریس بریفنگ‘ چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنس‘ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا احتجاج اور عمران خان کا دھرنا سب کیلئے توجہ طلب ہے۔ لیکن ہر ہسپتال میں کینسر‘ ڈیالسز‘ امراضِ قلب‘ امراضِ معدہ‘ امراضِ جگر اور ذہنی امراض کی 24 گھنٹے جاری پریس بریفنگ کیوں اشرافیہ اور میڈیا کیلئے قابل توجہ نہیں؟ تھانے میں 80 فی صد سے زیادہ پڑے بے گناہ، جیلوں میں وہ اکثریت جو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے۔ وہ جو محکمہ حال کے افسروں کی بدمعاشیوں کی زد میں ہیں اور مجسٹریٹوں، سول ججوں کی ستم ظریفیوں ہی نہیں، وکلاءسے اہلمدوں تک کی ٹھوکر پر ہیں۔ ان کی قسمت اور بے بسی جو ماتم کر کے پریس کانفرنس کرتی ہے۔ آخر یہ کسی تحقیق کار، سیاستکار اور قلم کار کو کیوں نظر نہیں آتی۔ بے روزگاری اور غریبی کا سسکتا بلکتا احتجاج کیوں نظر نہیں آتا؟ آہ! جب یہ سطور رقم کر رہا تھا حلقہ دیار اس دن کو یوم مزدوراں قرار دیتا ہے۔ کاش کوئی دن مزدور کو واقعتاً انسان بھی قرار دے! وہ دھرنا جو مفلسی کئی عشروں سے شبستانوں، ایوانوں، بالا خانوں، سیاست کے مستانوں اور حرص و ہوس کے پہلوانوں کے سامنے دیئے بیٹھی ہے۔ اس کو دیکھنا کس کی بیٹ اور کس کی ذمہ داری ہے؟ قبلہ و کعبہ لکھوں تو میرے مہربان صدقے واری جاتے ہیں۔ اگر انہیں کرپشن کا اتحاد کہوں، انجمن ستائش باہمی یا ذہنی امراض میں مبتلا قانون شکن اور مفاد پرست لکھوں تو بلیک میلر کہتے ہیں۔ کیا بیورو کریٹ، سیاستدان، تھانے دار، پٹواری، وکیل، فوجی افسر، ڈرگ انسپکٹر، انکم ٹیکس انسپکٹر اور ایکسائز انسپکٹر سے بھی بڑا بلیک میلر بن گیا ہوں میں؟ اگر اذان دینا اور آئینہ دکھانا بلیک میلنگ ہے۔ تو بسم اللہ اور الحمد اللہ! ذرا سنئے! 21 اپریل 2016ءصبح سویرے سیل فون بجتا ہے۔ آواز آتی ہے ”نعیم مسعود! تم نے اقبال کے حوالے کالم دل سے لکھا ہے۔ زبردست! دل سے جو بات نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے“ یہ وہ جملے تھے جو معروف کالم نگار و شاعر ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب! بتائیے تو سہی میرے دل سے لکھنے سے کس پتھر کا دل موم ہوا یا کس ظالم نے ظلم رقم کرنا چھوڑ دیا۔
یہ بھی سنئے! 28 اپریل 2016ءکو یونیورسٹی آف سرگودھا کے میانوالی کیمپس میں ”ہائر ایجوکیشن اقبال کی نظر میں“ کے حوالے سے ایک سیمینار ہوا۔ وائس چانسلر ڈاکٹر ظہور الحسن ڈوگر اور کیمپس ڈائریکٹر ڈاکٹر الیاس طارق کی دعوت پر رخت سفر باندھا اور میانوالی چلے گئے۔ ہمیں معلوم تھا کہ بیگم ذکیہ شاہنواز (صوبائی وزیر اور ہائر ایجوکیشن) مہمان خصوصی ہیں۔ ممبر قومی اسمبلی جعفر اقبال (پارلیمانی سیکرٹری دفاع)، چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی آف قومی اسمبلی برائے پلاننگ ڈویلپمنٹ اور ریفارمر عبدالحمید خانان خیل (بھکر) ایم این اے ڈاکٹر ڈھاندلہ (بھکر) اور انعام اللہ خان نیازی ممبر صوبائی اسمبلی (بھکر + میانوالی) مہمانان اعزاز ہیں۔ لیکن ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں۔ ہمارے سیاستدانوں، خانوں اور خصوصی مہمانوں میں 21 ویں صدی میں بھی آ کر اور گلوبل ویلج میں دنیا سکڑ جانے کے بعد بھی یہ کلچر کب ڈیویلپ ہوا ہے کہ تعلیم کو فوقیت دیں‘ اقبال اور اقبالیات کو اہمیت دیں یا امور صحت کے متعلق سوچیں۔ لوگ مزارعے اور بے چارے رہیں گے تو ہاتھ باندھ کر پیچھے پیچھے پھریں گے اور ووٹ دیں گے۔ ڈھانڈلا صاحب اور عبدالمجید خانان خیل و انعام اللہ نیازی کی تعلیمی وعدہ خلافی پر یہی کہوں گا کہ
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرہ تو اک قطرہ¿ خوں نہ نکلا
عطاءاللہ شاہ بخاری نے ایویں تو نہیں کہا تھا کہ‘ اقبال کی سمجھ نہ انگریز کو آئی اور نہ اس قوم کو۔ قوم کو سمجھ آ جاتی تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جاتیں‘ اور اگر انگریز کو سمجھ آ جاتی تو اقبال بستر مرگ پر الوداع نہ ہوتا تختہ دار پر چڑھایا جاتا.... خیر راقم ”ہائر ایجوکیشن اور اقبال“ پر ایک طالب علم کی حیثیت سے کہہ کر ڈائس سے واپس سٹیج پر آیا تو محترمہ ذکیہ شاہنواز نے کہا ”آپ دل سے بولے ہیں۔ میری وزیراعلیٰ سے میٹنگ تھی میں میزبان سے اجازت مانگ رہی تھی لیکن آپ کو سن کر رک گئی“ یہ بات محترمہ نے اپنی تقریر میں بھی کہی کہ ”چلی جاتی تو دردِ دل سے کہی باتیں مِس کرتی۔“ محترمہ ذکیہ شاہنواز آپ کا شکریہ‘ آپ رک گئیں ورنہ وزراءکے پاس وقت ہی کہاں ہوتا ہے کسی فقیر کی بات سننے کا۔ رک گئیں تو سنیں! آپ دخترِ میانوالی ہی نہیں دخترِ پنجاب بھی ہیں اور اب مادر اعلیٰ تعلیم بھی۔ بس بیوروکریسی‘ کچھ دو نمبر وائس چانسلرز‘ کچھ تین نمبر پروفیسروں اور کچھ دس نمبر محققین کاروں سے یونیورسٹیوں کو نجات دلانے کی سعی فرما دیں۔ کوشش تو کی جا سکتی ہے۔ پانی چونچ میں بھر کے لایا جا سکتا ہے واقعی ایک جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے۔ ہاں! بھکر اور میانوالی کے کیمپوں کو یونیورسٹیاں قرار دلوا دیں اور سرگودھا یونیورسٹی پر سیاست دانوں کے پڑے آسیب کے سایوں سے بھی یونیورسٹی کو آزاد کروا دیں تاکہ آنے والے دنوں کی یہ ایک بڑی جامعہ ثابت ہو سکے۔ اس تقریب کی تفصیلات پھر سہی فی الحال یہ کہ‘ پرسوں وزیراعظم نے ”آف شور“ کمپنیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ چیف جسٹس چاہیں تو ”ٹی او آرز“ میں تبدیلی کر سکتے ہیں‘ ہم نے خود کو سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا ہے۔ اس موقع پر کسی نے پوچھا کہ عمران خان کا علاج کیا ہے تو سرکار نے فرمایا کہ عمران خان لاعلاج ہیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر خواجہ آصف نے عمران خان کو نام لئے بغیر طعنہ دیا کہ ”تیرا کی بنے گا کالیا“ یعنی تیرے دونوں خاص بندوں کی آف شور کمپنیاں نکل آئیں۔ کیسے سبھی نے سیاست و صداقت کو مذاق بنا ڈالا۔
آہ! لوگ آف شور کمپنیوں کو رو رہے ہیں یہاں پوری پاک سرزمین کو ”آف شور مافیا“ نے شور زدہ کر دیا ہے۔ کہیں چور مچائے شور‘ یہی نہیں جو ہم سیاستدانوں کو نہیں کہتے‘ وہ خود پی ٹی آئی‘ پی ایم ایل این اور پی پی پی والے ایک دوسرے کہ کہہ رہے ہیں کہ‘ تو چور‘ تو چور اور تو بھی چور.... اور دل سے کہہ رہے ہیں! مگر افسوس کہ دل سے کہی باتوں کو زمانہ سمجھتا تو ہے اجمل نیازی اور بیگم ذکیہ شاہنواز کی طرح لیکن دل سے جو بات نکلتی ہے اس کا اثر کہاں ہے؟ کب سود دن چور کے مکمل ہوں گے اور ایک دن سعد کا آئے گا؟ اشرافیہ کے جرائم بھی ادا لگتے ہیں۔ جانے کب میرا وطن مجھ جیسے عام اور عوام کو دیا‘ غیر کے بجائے دیار عشق لگے گا۔ کب عشق میں گرمیاں‘ حسن میں شوخیاں‘ غزلوں میں تڑپ اور زلف ایاز میں خم ہو گا؟ کوئی بتلائے واقعی
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں‘ طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

مزیدخبریں