قارئین اس بار بھی حسب سابق یوم مئی منایا جا رہا ہے اور کون نہیں جانتا کہ دنیا کے ہر ملک میں، ہر سال ہر یکم مئی کو ہر مزدور اپنا یہ ’’یوم حق‘‘ مناتا ہے کیوں مناتا ہے؟ ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آتی اور چونکہ سمجھ نہیں آتی اسلئے ہمارے آج کے کالم کا محرک ہی یہی ایک لفظ کیوں ؟ ہے ’’کیوں‘‘ کا لفظ یہاں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک تو ان معنوں میں کہ اگر یہ دن منانے سے مظلوم و مقہور و جمہور مزدوروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے، مزدور دوست تنظیموں کی کانفرنسوں سے یا ظالم و قاہر آجروں کے نام نہاد ہزاروں رحیم و کریم الفاظ کی ہنر مندی سے ان کا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔ ان کے ننگے سروں پر چھت نہیں پڑتی ہے۔ ان کے بچوں کو دوا غذا کی سہولت حاصل ہو جاتی تو پھر یہ دن کیوں منایا جاتا ہے؟ جبکہ دوسرے کیوں سے ہماری مراد یہ ہے کہ آج سے ایک سو سال پہلے جب شکاگو کے مجبور و بے بس فاقہ زدہ مزدوروں پر اندھی گولی چلی تھی انہیں بھون ڈالا گیا تھا شکاگو کی سیلٹی و سڑکیں انکے سرخ خون سے سرخ ہوئی تھیں تو کیا اس سرخ قیامت صغرا کے بعد پوری ایک صدی میں چاند پر پہنچنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انصاف و جمہوریت کا ورد کرنے والے جدید انسان نے ان کے تمام تر مسائل حل کر دیئے ہیں؟ اور اگر کر دیئے ہیں تو پھر یہ دن کیوں منایا جاتا ہے؟ مزدور برادری اپنی بیکار کی یہ سالانہ مزدوری بند کیوں نہیں کر دیتی؟ اس روز کیوں احتجاجاً وہ مزدوری سے چھٹی کر کے ننگی سڑکوں پر ننگے پائوں گھر سے باہر نکل آتی ہے؟ کیوں انکی بیویاں ہانڈیوں میں فاقے پکاتی ہیں اور بچے ننگی زمین پر سوکھی سسکیوں کی نیند سو جاتے ہیں۔
پتھر ابالتی رہی اک ماں تمام رات
بچے فریب کھا کے چٹائی پہ سو گئے
آخر ظلم و ستم کا یہ سارا ایکشن ری پلے بار بار کیوں دہرایا جاتا ہے؟ کیوں دیکھا جاتا ہے؟ بہر حال لگتا ہے قارئین ہماری اس حیرت کا اس دکھ اور ترس کے جان لیوا احساس کا جواب شائد کسی کے پاس بھی نہیں ہے کہ انسان، انسان کے ساتھ آخر ایسا امتیازی بلکہ ظالمانہ و جابرانہ و جانورانہ سلوک کیوں روا رکھتا ہے؟ بلکہ کب تک روا رکھا جاتا رہے گا؟ جب انسان شرفِ انسانیت سے اس درجہ گر جائے کہ گرنے کو مزید کوئی تھاہ ہی نہ رہے تو پھر مظلوم مزدوروں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اچھے حقوق اور انصاف کی تحصیل کیلئے گزشتہ ایک صدی سے ایک ہی لب و لہجہ میں ایک ہی سوال دہراتے جائیں کہ انہیں انسان کا درجہ دیا جائے ؟ وہ برحق یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک بار انہیں انسان سمجھ لیا گیا تو پھر ان کی رسائی انکے حقوق تک بھی یقینا ہو جائے گی مگر سوال یہ ہے کہ کیا ظالم و بے حس آجر کبھی اس مقام پر بھی آ جائے گا کہ زمین سے آسمان تک کے فاصلے کو بیک جست طے کر کے انصاف و حقوق کی درجہ بندی کر لے؟ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ کیا وہ نہیں دیکھتا؟ وہ نہیں سمجھتا؟ کہ وہ مزدور جو اسکے کارخانے میں ہر روز کروڑوں گز کپڑا بناتا ہے پھر بھی ننگا ہے۔O لاکھوں ٹن اناج اگاتا ہے پھر بھی بھوکا ہے۔O آجر کیلئے ہر نعمت کارخانے میں ڈھالتا ہے پھر بھی محروم ہے۔O انسان نما حیوانوں کیلئے مکان بنا کر ان کو چابی پکڑا کر باہر نکل جاتا ہے خود بے چھت ہے ، بے گھر ہے۔O سرخ گرمی اور نیلی سردی میں اپنی فاقہ زدہ کھچی ہوئی انتڑیوں کے ساتھ درجنوں اینٹیں اٹھا کر اونچی چھت پر چڑھتا ہے پھر بھی ذلت کے تحت الثریٰ میں ہے۔O بیمار پڑے تو بے دوا ہے ۔۔۔۔۔!O اسکی جوان بیٹیاں بے رِدا ہیں۔۔۔۔!
بتائو آجرو یہ سب کیا ہے؟ کبھی سوچا ہے انسان کو انسان سمجھنے کا عمل کب شروع کرو گے؟ چھ حسیں رکھنے والے مزدوروں کو جب کام کیلئے کارخانوں میں جھونکتے ہوتو کیا ان کو بھی کسی مشین ہی کا کوئی پرزہ سمجھ لیتے ہو؟ اپنی میلوں لمبی زمین پر سے جب اس سے اناج کٹواتے ہو تو اسے بھی اس بے حس زمین ہی کا ایک حصہ سمجھتے ہو؟ جس پر چل پھر کر اس کی ’’انا‘‘ کو روند ڈالو؟ جن پتھروں سے اسی سے اپنا مکان بنواتے ہو کیا اسے بھی انہی پتھروں کا ہی کوئی ٹکڑا سمجھ لیتے ہو؟ چھوٹے چھوٹے بے کس مزدور بچوں کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بڑی بڑی گاڑیاں دھلواتے ہو تو ان کے آنسوئوں کو بھی نلکے کا عام پانی سمجھ لیتے ہو جس سے وہ تمہاری گاڑی دھوتے ہیں؟خدارا ان مزدوروں، مظلوموں کو ’’ایام‘‘ کے نرغے سے باہر نکال لو، عملاً انہیں علاج، تعلیم اور مکان کی سہولتیں دو کسی بھی دفتر میں کسی بھی کھیت میں یا کسی بھی کارخانے میں کام کرنے والے انسان کی جوانی، بڑھاپے اور وقت کی قیمت پندرہ ہزار ماہوار سے کم نہیں ہونی چاہئے اگر ہماری اسمبلیوں کے ٹھنڈے گرم کمروں میں بیٹھنے والے بڑے بڑے موٹے سیاستدان ہاتھوں سے مزدوری کرنے کے جائے صرف اور محض زبان چلانے کے عوض پچاس پچاس ہزار روپے محض ایک دن کا خرچہ لے لیتے ہیں تو تیس دن تک دس گھنٹے ہر روز کام کرنے والے صرف 25 ہزار کیوں نہیں لے سکتے؟ اسمبلیوں کے سرد و گرم عشرت کدوں میں بیٹھ کر مہنگائی کرنے والے اور عوام کو ڈالروں کے لچھوں اور گچھوں کے حساب میں الجھا کر فاقوں کی مار دینے والے ذرا خود بھی دو سو روپیہ ہر روز لے کر اس سے اپنے کتوں کو دودھ ڈالنے کے بجائے اسی میں بچوں کا کھانا اسی میں اپنے مکان کا کرایہ، بچوں کی تعلیم، دوا، لباس اور دکھ سکھ کا خرچہ کر کے دکھائیں کیا غربت اور مہنگائی سے کچلے ہوئے عوام بھی اسی پاکستان کی پیداوار نہیں ہیں؟ اسی قائداعظم کے بیٹے نہیں یں؟ اسکے پیارے نہیں ہیں؟ اسی پیاری مٹی کے بیٹے نہیں ہیں؟ پھر ان پر نعمتوں اور سہولتوں بلکہ ضروریات زندگی کے دروازے کیوں بند ہیں؟ کیوں بند ہوں؟
آخر میں اپنے مزدور بھائیوں کیلئے یہ پیغام ہے کہ
O اٹھو اور اٹھ کر آجر سے اپنا حق چھین لوO ان کے کارخانے چلانا بند کر دوO ان کیلئے شیش محل بنانا ختم کر دو ان کے یہ شیش محل تمہاری عزتِ نفس کو ڈسنے والے شیش ناگ ہیں۔O ان کے محلات کی صفائی ستھرائی کا کام چھوڑ دو اس لئے کہ یہ میلے ضمیروں والے تمہارے ہمدرد نہیں ہیں۔بس اتنا یاد رکھو کہ حق طاقت ہے طاقت حق نہیں ہے اور تو اور خود شاعرِ مشرق علامہ قابال نے بھی یہی فرمایا تھا کہ …؎
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو
’’ہر یکم‘‘ کو کیوں یوم مئی منایا جاتا ہے؟ فائدہ؟
May 02, 2017