مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ روز اسلام آباد میں ملتان اور بہاول پور ڈویژن کے مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی و سینٹ اور بلدیاتی سربراہوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اوچھے ہتھکنڈوں کے سامنے نہیں جھکوں گا بلکہ (ان کیخلاف) جنگ لڑوں گا۔ اُنہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو جھوٹا، اور پیپلز پارٹی کے رہنما اورسابق صدر زرداری کو دھوکے باز قرار دیا۔ نواز شریف نے تحریک انصاف کے لاہور میں 29 / اپریل کے پاور شو پر استہزائیہ انداز میں تبصرہ کیا۔ ’’جلسہ لاہور دا‘ مجمع پشور دا، ایجنڈا کسے ہور دا‘‘۔دوسری جانب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سرگودھا ڈویژن سے اپنی جماعت کے رہنمائوں سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’نواز شریف نے ہر موقع پر ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑا کر خود ہاتھ ملا لیا۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان بھی ان کی چال میں آ کر دیا۔‘‘ اسی طرح تحریک انصاف کے رہنما عمران خان بھی اپنے حریفوں اور خصوصاً نواز شریف کے خلاف الزام تراشی میں پیچھے نہیں ہیں۔ قوم سیاسی رہنمائوں سے بڑی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے۔ عمران خان کے جلسے میں شرکت کیلئے ملک کے کونے کونے سے آنیوالے لوگ محض ’’زیارت‘‘ کے شوق میں سفر کی مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے لاہور نہیں پہنچے بلکہ وہ یہ جاننے کیلئے آئے تھے کہ اُنکے مقدر کے ستارے جو گزشتہ ستر سال سے گردش میں ہیں،انہیں گردش سے نکالنے کی کوئی تدبیر ’’اُن‘‘ کے پاس ہے بھی یا نہیں؟ آپ لاکھ کہتے رہیں عمران جھوٹا، یا زرداری دھوکے باز ہیں، لیکن اُنکے پرستار اپنے نظریات تبدیل نہیں کرینگے۔اسی طرح جہاں تک زرداری صاحب کی اپنے ’’شہرہ آفاق‘‘ بیان بارے وضاحت کا تعلق ہے ، کوئی ماننے کوتیار نہیں کہ وہ اتنے سادہ لوح ہیںکہ وہ میاں صاحب کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔ اسی طرح میاں صاحب کا اوچھے ہتھکنڈوں کے آگے نہ جھکنے کا عزم قابل ستائش ہے ، صاحب عزم آدمی کو ایسا ہی ہونا چاہئے کہ اُسے دلیل کی طاقت سے تو زیر کیاجا سکتا ہے، لیکن اوچھے ہتھکنڈوں سے جھکانا ممکن نہیں ہوتا۔ ہتھکنڈوں کا خواہ وہ کسی نوعیت کے ہوں، عزیمت سے مقابلہ کرنا اچھی بات ہے تاہم اس کیلئے جنگ کی اصطلاح درست نہیں۔ فتنہ و فساد کی فضا پیدا کرنا کسی طور بھی مستحسن نہیں، شائستہ انداز میں جدوجہد کی کامیابی کے امکانات تشدد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ میاں نواز شریف ہوں، عمران خان یا زرداری صاحب یا دیگر لیڈران، ایک دوسرے پر تنقید کریں لیکن کیچڑ نہ اُچھالیں۔ بیچ چوراہے ’’کپڑے‘‘ دھونے سے جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جوںجوں الیکشن قریب آئینگے انتخابی بخار میں شدت آئے گی، لیکن اتنی بھی شدت نہیں ہونی چاہئے کہ کلمۂ خیر سننے کو کان ترسنے لگیں۔ اور سب سے ضروری یہ کہ سیاستدان باہمی اختلافات کو آپس تک ہی محدود رکھیں۔ اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی بھی ادارے کو درمیان میں گھسیٹنے سے گریز کریں۔