پاکستان کی سیاست میں اہم کردار نوازشریف ‘ جو اس وقت حکمران جماعت کے تاحیات قائد بھی ہیں‘ کا مستقبل کیا ہوگا؟ جس محفل میں بیٹھ جائیں‘ جہاں چلے جائیں‘ یہی سوال زیربحث ہے۔ کیا مسلم لیگ نواز صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی؟ پہلی آپشن تو یہ تھی کہ نوازشریف کو سیاسی موت مارا جائے اور تاحیات نااہلی کے فیصلے کے بعد آہستہ آہستہ وہ عوام میں اپنی ساکھ اور ووٹ بنک کھو دیں‘ لیکن یہ پلان ناکام ہو چکاہے۔ عوام نے نوازشریف کے بیانیے کو Buy کر لیا ہے اور آج بھی نوازشریف کا عوامی مینڈیٹ قائم ہے۔
اب اس پر بات کر لیتے ہیں کہ اگر نوازشریف کو سزا ہوتی ہے تو آئندہ کا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا؟ نوازشریف کو سزا ملنے کی دو صورتیں بن سکتی ہیں۔ نوازشریف کو این آر او دیکر ایک بار پھر جلاوطنی پر مجبور کر دیا جائے۔ جو یقینا بہت سے حلقوں کے مفاد میں ہے۔ دوسری صورت نوازشریف قصہ ماضی بن جائیں گے اور جیل کاٹیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے باقی پرندے پی ٹی آئی کی شاخ پر منڈلانے لگیں گے۔
اب آتے ہیں خطرناک صورتحال کی طرف جو نوازشریف کو سزا ملنے کی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ نوازشریف نے اب پیش گوئی کر دی ہے کہ ان کیلئے اڈیالہ جیل تیار کی جا رہی ہے اور جیل کی صفائی کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے نوازشریف نے سوات جلسے میں اسی طرف اشارہ کیا تھا کہ میں جہاں سے بھی کہوں‘ جو بھی کہوں عمل کرنے کیلئے تیا رہنا۔ اس بیان کا بھی خوب چرچا ہوا اور یہ سمجھا جا رہا ہے کہ نوازشریف کو احتساب عدالت میں سزا کا فیصلہ جیل جانا دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے۔نوازشریف نے لوگوں کو آنے والے حالات کیلئے تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایک سوچ یہ ہے کہ نوازشرف جیل گئے تو کوئی ان کے حق میں سڑکوں پر ، نہیں نکلے گا۔ وہ بطور مثال یہ پیش کرتے ہیں کہ جلاوطنی کے وقت نوازشریف نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ پھر جب وہ جدہ سے اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے اور انہیں واپس کر دیا گیا تو کوئی احتجاج نظر نہیں آیا۔ اب بھی نوازشریف کو سزا ہونے کی صورت میں جیل جانے تک ایک بندہ سڑکوں پرنہیں نکلے گا۔لیکن میرا اختلاف یہ ہے کہ اس بار حالات ذرا مختلف ہیں۔ اس وقت سابق آرمی چیف پرویزمشرف نے نوازشریف کو جیل میں ڈالا تھا اور ایک ڈکٹیٹر حکومت کر رہا تھا۔ نوازشریف کے حامیوں کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور ان کے ساتھ جو سلوک کیاگیا‘ اس کی ایک زندہ مثال پرویز رشید کی صورت موجود ہے۔
اب کوئی ڈکٹیٹر نہیں ہے۔ میڈیا موجود ہے۔ اس طرح کے اقدامات کو اب نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات درست ہے کہ ایسا بھی نہیں ہوگا کہ اب کی بار نوازشریف کے حق میں لوگ اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہونگے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ نوازشریف کے حق میں کوئی تحریک چل سکتی ہے اور نوازشریف کے جیل جانے کے بعد اگر کوئی تحریک چل سکتی ہے تو وہ صرف مریم نوازشریف چلا سکتی ہیں۔ انہوں نے چند ماہ میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ این اے 120 کی الیکشن مہم چلا کر بھی یہ ثابت کر دیا کہ وہ مشکل حالات سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ نوازشریف بالفرض جیل چلے جاتے ہیں اور مریم نواز باہر ہوتی ہیں تو میں مکمل طورپر Convinc ہوں کہ مریم نواز تحریک چلا سکتی ہے جوکہ کامیاب اور خطرناک دونوں ہوسکتی ہے‘ لیکن یہ اس صورت ہو سکتا ہے جب مریم نواز سزا سے بچ جائیں اور نوازشریف کو جیل ہو جائے۔نوازشریف کی نااہلی کے بعد سے‘ سوائے جی ٹی روڈ کے باقی جتنے بڑے عوامی جلسے کئے گئے‘ ان کا کریڈٹ مریم نواز کو جاتا ہے۔ نوازشریف کا بیانیہ اگر مقبول ہوا ہے تو اس کے پیچھے بھی مریم نواز کا ہاتھ ہے۔ اگر یہ تحریک کامیاب ہوتی ہے تو یقینا معتبر حلقوں کو سوٹ نہیں کرے گی۔ یہ Back Fire کر سکتی ہے۔ یہ ایک تجزیہ ہے۔ ہم تو حالات و واقعات کو تاریخ کے آئینے اور مستقبل کی دوربین کے ساتھ رکھ کر صرف تجزیہ اور رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ باقی پاکستانی سیاست ایک انہونی کا نام ہے۔
نوازشریف کا مستقبل‘ مریم نواز کا کردار
May 02, 2018