پبلک سیکٹر کمپنیوں میں تعینات افسروں سے تنخواہوں کی واپسی‘ چیف سیکرٹری نے 2 کمیٹیاں بنا دیں

لاہور (سپیشل رپورٹر) سپریم کورٹ کی جانب سے پبلک سیکٹر کمپنیوں میں تعینات سرکاری ملازمین کو لاکھوں میں تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر الائونسز دینے اور ان اضافی پیسوں کی واپسی کا جائزہ لینے کے لئے چیف سیکرٹری پنجاب کی زیر صدارت اجلاس ہو ا جس میں سپریم کورٹ کے احکامات کا جائزہ لیا گیا جس پر چیف سیکرٹری پنجاب نے دو کمیٹیاں تشکیل دی ہیں ایک کمیٹی کے سربراہ سیکرٹری خزانہ جبکہ دوسری کمیٹی کے سربراہ سیکرٹری ریگولیشن ہونگے جو اس کا جائزہ لے گی ۔ ذرائع کے مطابق ان کمپنیوں میں تعینات اعلیٰ افسران ، ملازمین کو تعینات کیا گیا تھا میں زیادہ تر وہ افسر شامل ہیں جس وقت کمپنیاں بنیں اس وقت وہ اس محکمے کی اعلیٰ اسامی پر تعینات تھے یا ان کا کوئی قریبی عزیز یا دوست محکمے کی پوسٹ پر تعینات تھا جس کے لئے ان کی تعلیمی قابلیت سامنے رکھ کرپوسٹو ں پر بھرتی کے لئے اہلیت کا معیار بنایا گیا تھا پبلک سیکٹر کمپنیوں میں بھرتی تھرو پبلک سروس کمشن کرنے کی بجائے محکموں اداروں کے اعلیٰ افسران پر مشتمل پینل بنا کر بھرتیا ں کی گئی تھیں جس میں پسند نا پسند اور سیاسی پریشر کو مدنظر رکھا گیا تھا تاہم کسی محکمے کے پاس کسی کمپنی کی سالانہ کارکردگی رپورٹ نہیں بھجوائی گئی تھی اب سپریم کورٹ کے ایکشن کے بعد تمام ریکارڈ مکمل کیا جارہا ہے اور پرانی رپورٹس محکموں کی فائلوں میں لگانی شروع کر دی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق چیف سیکرٹری پنجاب خود بھی ایک کمپنی کے سربراہ رہے ہیں جس میں متعدد میگا پراجیکٹ اس کمپنی کے ذریعے مہنگے ریٹ پر دئیے گئے تھے جس کو بعد ازاں ختم کر دیا گیا اسلئے ختم کی گئی کمپنیوں کا ریکارڈ نیب کو فراہم نہیں کیا جارہا۔ گزشتہ روز میٹنگ میں جو فیصلے کئے گئے ان کے مطابق تمام کمپنیوں میں تعینات سرکاری افسران اپنے وکیل کے ذریعے سپریم کورٹ میں اپنی تنخواہوں کے کیس میں پارٹی بننا چاہیں تو بن سکتے ہیں ۔ سرکاری طور پر ذرائع کے مطابق دو سیکرٹریوں نے اعتراض اٹھایا کسی بھی افسر سے حکومت پنجاب دی ہوئی تنخواہ واپس نہیں مانگ سکتی اسلئے قانون کا جائزہ لیا جائے گا اس کے بعد اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...