اسلام آباد (وقائع نگار) وفاقی دارالحکومت کے تمام سیکٹرز میں بھاری سرمایہ کاری کرنے والے بیشتر شہریوں کو تخلیق کیے گئے پلاٹس پر گھروں کی تعمیر سے روک دیا گیا جس سے کروڑوں روپے خرچ کرکے پلاٹس خریدنے والے شہری دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ سی ڈی اے نے ناکارہ اراضی اور بڑے بڑے لان بناکر سرکاری اراضی پر تجاوز کرنے والے رہائشیوں سے زمین واپس لینے کے لیے باقاعدہ پلاننگ کرکے پلاٹس تخلیق کیے جس سے ادارے کو اراضی پر قبضہ ختم کرانے اور بھاری ریونیو حاصل کرنے میں مدد ملی۔ لیکن تجاوز کرنے والے رہائشی عدالت پہنچ گئے اور حکم امتناع حاصل کرلیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نہ صرف درخواست گزاروں کے گھروں کے قریب تخلیق کیے گئے پلاٹوں پر حکم امتناع جاری کیا بلکہ پورے اسلام آباد کے تمام سیکٹرز میں تخلیق کیے گئے 2130 پلاٹوں کے قبضے اور ان پر گھروں کی تعمیر روک دی جس سے بیس سال پرانے تخلیق کیے گئے پلاٹوں پر بھی شہریوں کی جانب سے گھروں کی تعمیر رکوادی گئی۔ سی ڈی اے کے پلاننگ قوانین کے مطابق کسی بھی سیکٹر میں زیادہ سے زیادہ تعمیرات کا ایریا 55 فیصد ہونا چاہیے تاہم ڈویلپ سیکٹرز میں کوئی بھی سیکٹر ایسا نہیں جو 55 فیصد کوورڈ ہو۔ بیشتر سیکٹرز 40 سے 45 فیصد کوورڈ ہیں۔لیکن سرکاری اراضی پر بڑے بڑے لان اور تجاوزات قائم کرنے والے عدالت سے حکم امتناع لے لیتے ہیں جس سے وفاقی ترقیاتی ادارے کو اپنی ہی زمین پر پلاٹس تخلیق کرنے اور ناکارہ زمین سے تجاوزات ختم کرانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔