سپریم کورٹ میں میمو گیٹ کیس کی سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی نے عدالت عظمی کو آگاہ کیا کہ حسین حقانی کی تحویل کے معاملے پر امریکی حکام کہتے ہیں کہ ہمارا بندہ بھی آپ کے پاس ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے خلاف میمو گیٹ کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے)کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ کیا حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ جاری نہیں ہوئے؟۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ اس حوالے سے انٹرپول کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کی، امریکی حکام کو ریڈ وارنٹس سے متعلق آگاہ کیا، تاہم امریکا نے بھی پاکستان سے ایک مجرم مانگ لیا ہے، امریکی حکام کہتے ہیں ہمارا بھی ایک بندہ آپ کے پاس ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سنا ہے، حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے انکار کرایا گیا ہے؟۔ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ 'میری امریکی حکام سے بات ہوئی ہے، وہ کہتے ہیں ہمارا بھی ایک بندہ آپ کے پاس ہے، میں نے امریکی حکام کو ریڈ وارنٹ بھی دکھائے'۔چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے سوال کیا کہ امریکی حکومت نے حسین حقانی کو پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے؟ ۔ امریکہ سے کون پوچھے گا کہ حسین حقانی وطن واپسی کی یقین دہانی کروا کے بیرون ملک گئے تھے، کیا پاکستان امریکی عدالت کو دھوکہ دینے والوں کو واپس نہیں کرے گا،کوئی امریکی سپریم کورٹ کو بیان حلفی دے کر پیش نہ ہو تو امریکا کے مانگنے پر پاکستان انکار کرسکتا ہے؟۔ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ حسین حقانی کی طرف سے 4.1 بلین روپے کرپشن کی بات بھی امریکی حکام کو بتادی ہے، امریکی حکام کی جانب سے تعاون کیا جارہا ہے اور ایم کیو ایم کے بانی کے کیس میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ انٹرپول میں 5 بھارتی موجود ہیں مگر ہمارا ایک بھی نمائندہ نہیں، ہمارا تعلق غریب ملک سے ہے۔سپریم کورٹ نے قانون دان احمر بلال صوفی کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے ہدایت کی کہ احمر بلال صوفی، حسین حقانی کی وطن واپسی سے متعلق معاونت کریں۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران میموگیٹ کیس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ حسین حقانی وطن واپس آکر میمو گیٹ کاسامنا کریں۔بعدازاں رواں برس 2 فروری کو چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ تشکیل دیتے ہوئے میموگیٹ کیس کو سماعت کے لیے مقرر کردیا۔مذکورہ کیس کی 15 فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حلف کی خلاف ورزی پر امریکا میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں اس وقت امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی کا ایک مبینہ خط(میمو)سامنے آیا تھا۔حسین حقانی کی جانب سے بھیجے جانے والے میمو میں مبینہ طور پر یہ کہا گیا تھا کہ ایبٹ آباد میں القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کے کمپانڈ پر امریکی حملے کے بعد ممکن ہے کہ پاکستان میں فوجی بغاوت ہوجائے۔میمو گیٹ میں اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے امریکا سے معاونت مانگی گئی تھی تاکہ حکومت ملٹری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قابو میں رکھ سکے۔اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مذکورہ میمو درست ہے اور اسے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔کمیشن نے کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد امریکی حکام کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ پاکستان کی سول حکومت امریکا کی حامی ہے۔اس معاملے کو اس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف سپریم کورٹ میں لے کر گئے تھے جس کے بعد حکومت نے حسین حقانی سے استعفی لے لیا تھا اور وہ تب سے بیرون ملک مقیم ہیں۔