معیشت کے قلعے

کوئی ذی شعور اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ ایوانہائے صنعت و تجارت معیشت کے قلعے ہیں۔ ان قلعوں کو مضبوطی و رونق ملکی معیشت کے استحکام کا باعث بنتی ہے۔ ان قلعوں میں سرمایہ کاری لانے کی تدابیر کی جاتی ہیں۔ یہاں سے صنعتوں کو چلانے اور کاروبار بڑھانے کی روشنی ملتی ہے۔ ان میں ترتیب و تشکیل پانے والی تجاویز و سفارشات پر عملدرآمد سے کاروبار میں وسعت آسانیاں اور نئے کاروبار شروع کرنے کے لیے رہنمائی ملتی ہے۔ تجارت اور تاجروں کو افسر شاہی کی دست برد سے بچانے کے لیے یہ قلعے ڈھال کا کام کرتے ہیں۔ جب کبھی ایوانہائے صنعت و تجارت کی بجائے حکومتی مشینری کے کل پرزوں پر انحصار بڑھایا گیا۔ نقصان اٹھانا پڑا۔ قائد اعظم رحمتہ اللہ نے نومولود وطن عزیز میں معیشت کو وسعت و استحکام دینے کے لیے ایوان صنعت و تجارت کے ممبران پر بھروسہ کیا۔ ستر کی دہائی میں فعال و موثر کارخانوں اور کاروباروں کو ان کے تخلیق کاروں سے چھین کر بیوروکریسی کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔ ایسے کارخانے اور کاروبار تھوڑے وقت میںکھٹارہ بن کر عبرت نشان ہو گئے۔ مشہور مقولہ ہے کہ رموز مملکت خسرواں می دانند۔ حکمرانی کے بھید حکمران جانتے ہیں۔ اسی طرح کاروبار کرنے کے بھید کاروباری افراد سمجھتے ہیں جس نے مشین کے پرزوں تک کو دیکھا نہیں۔ صرف پیپر ورک تک محدود رہتا ہے وہ مشین کی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی بڑھانے کا راز کسی صورت نہیںجان سکتا۔ بزنس کی حساسیت سے ناواقفیت کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ حکومت کے ذمہ دار وزیر نے بیان دے دیا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط مان کر قرض نہ لیاتو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ وزیر باتدبیر نے بزعم خویش اظہار حقیقت میں معیشت کے لیے اس کے مضمرات پر غور نہیں کیا۔ یہ نہیں سوچا کہ ایسے بیانات کے بعد سرمایہ کاری کہاں جائے گی۔ اس بیان کی تلخی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک صوبائی وزیر نے عوام کو تلقین کر دی کہ دو روٹیوں کی بجائے ایک روٹی پر گزارہ کریں۔ پہلی بات یہ ہے کہ وزیر صاحب نے کفایت شعاری اور غربت پر گزارہ کی تلقین کے وقت یہ نہیں بتایا کہ وہ خود گھر سے ایک روٹی کھا کر آئے ہی۔ اگر ایسا نہیں تو اسی عمل کو دغلا پن کہتے ہیں جس کی اثرپذیری ہمیشہ مشکوک رہتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیان سے ملکی معیشت بارے عوام کو فکر مند کر دیا ہے۔ ایوانہائے صنعت و تجارت ملک میں کاروباری سرگرمیوں کے فروغ بارے غور و فکر کرتے رہتے ہیں لیکن موجودہ سیاسی جنگ و جدل کی فضا کسی طور کاروبار بڑھنے میں معاونت نہیں دیتی۔ چور چور کا اتنا شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بڑے سرمایہ کار اور صنعتکار ملک و قوم کے لیے کسی طور نعمت سے کم نہیں۔ کبھی میاں محمد منشا کو نیب کی یاترا کرائی جاتی ہے اور کبھی ہائوسنگ کے شعبہ کو جدت آشنا بنانے والے ملک ریاض کو پیشیاں اور رقوم بھرنے پر مجبور کیاجاتا ہے۔ زیادہ اثاثے نیب کاایسا کند ہتھیار ہے کہ جسے متعدد بار ذبحہ کرنے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے لیکن تنخواہ دار کی بقا اسی میں ہے کہ کچھ نہ کچھ کرتا رہے۔ معاشی شعبے میں بے ثباتی و بدامنی کا اس قدر منفی اثر مرتب ہو رہا ہے کہ پہلے فیز میں سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں نے کاوبار بڑھانے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ ان عوامل کی سست روی کا نتیجہ ہے کہ شرح نمو تنزلی کے گڑھے میں گر کر ساڑھے تین فیصد سے نیچے اور اگلے سال کے لیے اڑھائی فیصد سے نیچے آنے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انہی حالات کا نتیجہ ہے کہ مہنگائی کا اژدھا غریب کیا عام آدمی کو نگل رہا ہے۔ پیٹرول کا بم ایسا گرا ہے کہ ہرچیز کو آگ لگ گئی ہے۔ گیس کے نرخوں میں اضافے کی صورت حال اسی طرح رہی تو غریب کو بل ادا کرنے کے لیے شاید گھر کے برتن بیچنا پڑیں۔ مہنگائی ڈسنے سے چیخ نکلتی ہے تو بالائی منزل سے آواز آتی ہے کہ مزید چیخیں نکلیں گی۔ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ارباب اقتدار و اختیار اندوہناک حالات سے نکلنے کے لیے اقدامات کریں۔ معیشت کے قلعوں یعنی ایوانہائے صنعت و تجارت پر انحصار ار بھروسہ بڑھایا جائے۔ معاشی ترقی کے لیے ان کی سفارشات و تجاویز کو بھرپور پذیرائی دی جائے۔ پکڑ دھکڑ کا کھڑاک بند کیا جائے۔ وزیر مشیر پہلے تولو پھر بولو پر عمل کریں۔ اس حقیقت کو پلے باندھ لیں کہ بقا لڑائی میں نہیں بلکہ شانتی اور کارکردگی بڑھانے میں ہے۔ ایف بی آر کا قبلہ درست اور مقاصد دوبارہ لکھے جائیں ۔ صوابدیدی اختیارات کا ہتھیار ان سے لے لیا جائے۔ آمرانہ سوچ سے بنائے ہوئے شکنجہ یعنی نیب کی کڑیاں کھول دی جائیں۔ پرامن شہریوں اور کاروباری افراد پر خواہ مخواہ کپکپی طاری رکھتا ہے۔ اسکے خوف کی وجہ سے اکثر لوگ سرمایہ لگانے اور کاروبار کرنے کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بندشوں کی وجہ سے غربت و افلاس کے بادل گہرے ہو رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن