آئیے رحمتوں میں اپنا حصہ ڈالیں

قصہ گوئی بھی ایک فن ہے۔ آج کل خال خال لوگ ہی باقی ہوں گے جو اس فن میں طاق ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ہمارے اسلام آباد کے دوست (ر) میجرنذیر فاروق بھی شامل ہیں۔ وہ ایک سادہ محب وطن انسان ہیں۔ اردو انگریزی میں مہارت کے باوجود جب وہ اپنی مادری زبان پنجابی میں کوئی واقعہ ہیر رانجھا ، مرزا صاحباں اور سیف الملوک کی شاعری سے مزین کر کے سناتے ہیں تو قصہ گوئی کا اسلوب ان کے طرز بیاں سے جھلکنے لگتا ہے۔ رمضان المباک کی آمد آمد ہے۔ یہ رحمتوں کا مہینہ ہے جسے ہمارے مسلمان تاجر بھائی غریب مسلمان بھائیوں کیلئے زحمت بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ایسے ہی ناجائز منافع کمانے والے تاجر بھائیوں اور سنگدل بے حس حکمرانوں کیلئے جو گرانی کی لہر کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔ میجر فاروق نذیر نے ایک خوبصورت قصہ سنایا جو میں آپ سب سے شیئر کرنا چاہتا ہوں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور غیر مسلموں کی طرح اس مقدس ماہ میں اپنے غریب مسلمان بھائیوں کیلئے رحمت کا باعث بنیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ قیام پاکستان سے قبل پنجاب میں چک جھمرہ کے علاقے گھنے گوجراں میں ایک بڑا سکھ زمیندار لال سنگھ رہا کرتا تھا۔ وہ 5 مربعوں کا مالک تھا۔ اسکے جو کمی کمین مزارع مسلمان تھے جو اسکے کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ یہ ان کو ماہ رمضان میں خصوصی طور پر ایک ماہ کی چھٹی دیتا تھا تاکہ وہ اطمینان سے اپنا مقدس ماہ مذہبی عقیدت سے منا سکیں۔ صرف یہی نہیں اس پورے ماہ کیلئے اس سکھ زمیندار کی طرف سے تمام مسلمان مزاریوں کو ایک ماہ کا راشن مفت دیا جاتا تھا اور اسکی بھینسوں کے باڑے سے ان مسلمان مزارعوں کو دودھ اور دہی بھی مفت دستیاب ہوتا تھا۔ یہ سکھ گرنتھ صاحب کے علاوہ قرآن کا بھی مطالعہ کرتا رہتا تھا اور اسلام کے احکامات کے بارے میں بھی کافی آگاہی رکھتا تھا۔ مسلمان جب کسی جھگڑے میں پڑتے تو دور دور کے علاقوں م یں پھیلی اس کی شہرت کی وجہ سے اس سے فیصلہ کرانے آتے جو وہ اپنے علاقے کے مولوی سے قرآنی احکامات کے مطابق کرواتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ماہ رمضان میں ایک مسلمان کو کسی ڈیرے پر بیٹھا دیکھا جو حقے کے کش لگا رہا تھا تو اسے پکڑ کر مولوی صاحب کے پاس لایا اور کہا کہ اس کو سزا اسلام کیمطابق دی جائے۔ اس وقت اس علاقے کا نمبردار حاکم علی زندہ ہے جس سے ان واقعات کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ یہ تو اس ایک سکھ کا حال تھا۔ کیا ہمارے آج کے مسلمان صاحب ثروت لوگ اس سکھ سے بھی گئے گزرے ہیں کہ ان میں اخلاق و کردار کی یہ جھلک رتی بھر بھی نظر نہیں آتی۔ ماشااللہ اس وقت پورے پاکستان کے دکاندار تاجر سرمایہ کار دولت مند افراد حاجی ہی نہیں الحاج بھی ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ نذر نیاز صدقہ خیرات بھی یہی لوگ دیتے ہیں۔ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ کیا وہ اس ماہ اپنے اردگرد کے 100 مستحق افراد کو رحمت رمضان پیکج نہیں دے سکتے جس میں انہیں ایک ماہ کا مکمل کچن کا سامان وافر مقدار میں موجود ہو۔ اس طرح یہ لاکھوں ا فراد اس ماہ مبارک کے طفیل ان کروڑوں مسلمانوں کے روزوں، نمازوں، تراویح ، سحری اور افطار کے ثواب میں بھی شامل ہو جائینگے جو انکی وجہ سے اس مقدس و مبارک ماہ کی رحمتوں سے مستفید ہونگے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں جو زیادہ صاحب ثروت ہیں بڑے بڑے خانوادوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ہر چوک پر سحر و افطار کا بھی بندوبست کر کے رحمتوں کا خزانہ لوٹ سکتے ہیں۔ ا س ماہ ایک پر ستر سے زیادہ کا ثواب ملتا ہے تو آئینے آگے بڑھ کر ہزاروں گنا منافع پر اپنے رب سے تجارت کریں۔ لاکھوں گنا زیادہ منافع کمائیں۔ دنیاوی کاروبار میں بھی آپ کو گھاٹا نہیں ہو گا۔ وہ بھی منافع ملتا رہے گا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو غیر مسلم ممالک میں جب 50 فیصد سے بھی زیادہ رعایت پر اس ماہ اور عید کی شاپنگ پر رعایت ملتی ہے تو ہم مسلمانوں کا زیادہ حق ہے کہ ہم اس ماہ اپنے غریب بھائیوں کیلئے رحمت للعالمینؐ کے سچے امتی ہونے کا ثبوت دیں اور باعث رحمت بن جائیں۔
تاجر حضرات خاص طور پر اشیائے ضروریہ اور خورد و نوش کی قیمتیں کم رکھیں تاکہ عام مسلمان بھی روٹی پانی کی فکر سے نجات پا کر عبادات رمضان میں مشغول ہوں۔ سب کام صرف حکمرانوں کے کرنے کے نہیں ہوتے۔ عوام خود مل جل کر بھی بہت سے ایسے کام کر سکتے ہیں اور غریبوں کی دعائیں لے سکتے ہیں۔ حکومت ہر رمضان میں رسمی اعلانات اور بیانات کے ذریعے مطمئن ہو کر بیٹھ جاتی ہے۔ عوام کو ناجائز منافع کمانے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ حکومت کو بھی اپنی اصلاح کرتے ہوئے اپنے پہلے رمضان میں اپنی موجودگی کا بھرپور ثبوت دینا چاہئے ۔ ہر شہر اور دیہات کے بڑے چوکوں پر سرکاری نرخوں پر آٹا ، چاول ، چینی گھی اور دالوں کے سٹال لگا کر عوام کو فروخت کرے۔ سستے رمضان اور اتوار بازاروں میں وافر مقدار میں سبزیوں اور پھلوں کی ارزاں نرخوں پر سرکاری ریٹ کیمطابق فروخت یقینی بنائے چور بازاری اور منافع خوری میںملوث دکانداروں کو موقعہ نشان عبرت بناتے ہوئے بھاری جرمانے اور سزا دی جائے۔ اس طرح غریب بھی ماہ رمضان میں شاداں و فرحاں نظر آ سکتے ہیں۔ ویسے بھی سب سے افضل نیکی بھوکے کو کھانا کھلانا پیاسے کو پانی پلانا اور ننگے کو کپڑے پہننا ہے تو رمضان میں میں اس نیکی پر عمل کرنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ رمضان میں ہی غریبوں کو کھانے پینے کے ساتھ اگر عید کے موقع پر تن ڈھانکنے کیلئے کپڑے بھی ارزاں نرخوں پر یا فی سبیل اللہ اپنے رب کی خوشنودی کیلئے دئیے جائیں تو اس سے رحمت خدا وندی جوش میں آ کر ہمارے وطن عزیز کو باغ و بہار بنا دیگی۔ اسکی رحمت بھی اسی طرف جاتی ہے جہاں لوگ رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گیارہ ماہ دنیا کمانے کے ہوتے ہیں تو آئیے مل جل کر یہ ایک ماہ ہم اپنے رب کی خوشنودی میں لگا دیں جو سراسر منافع کا سودا ہے۔ گھاٹے کا نہیں تو پھر ڈر کیسا آئیے رمضان کو حقیقت میں رحمتوں کا مہینہ بنانے میں ہم اپنا کردار ادا کریں۔

ای پیپر دی نیشن