حال ہی میں ایچ ای سی کے جاری کردہ نوٹس کے مطابق نئے تعلیمی سیشن 2019-20 ء میں پاکستان کی جامعات دو سال بی اے‘ بی ایس سی‘ بی کام کی گریجویشن کے سالانہ پروگرامز اور ڈگریوں کے اجراء پر پابندی عائد کر دی ہے اور اگلے تعلیمی سال سے دو سالہ ایم اے‘ ایم ایس سی کے پروگرامز بھی جامعات آفرز نہیں کر سکیں گی۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریزی دور حکومت سے انٹر میڈیٹ کے بعد پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں دوسالہ بی اے بی ایس سی اور ایم ایے ایم ایس سی کے مربوط نصاب پر سالانہ بنیادوں پر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی طرح پر امتحانات لیتی ہیں اور لاکھوں متوسط گھرانوں کے بچے ریگولر یا پرائیویٹ یا یونیورسٹیوں سے الحاق شدہ کالجوں کے ذریعے بی اے‘ بی ایس سی‘ بی کام معمولی فیسوں کے عوض کرتے تھے اور ان ڈگریوں کی بنیاد پر سول سروس سے لے کر کارپوریٹ سیکٹرز میں بی اے بی ایس سی اور ایم اے‘ ایم ایس سی عملی زندگیوں میں نمایاں مقام پر فائز ہیں۔ بلکہ جو لوگ علیگڑھ یونیورسٹی سے بی اے یا ایم اے کرتے تھے وہ اپنے نام کے ساتھ بی اے اور علیگ بھی لکھتے تھے۔ مگر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے مشرف دور سے روایتی تعلیمی نظام اور امتحانی سسٹم کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ کبھی کسی چیئرمین نے فارم ہاؤس لیکر خیبر پختونخوا کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کو فاصلاتی نظام تعلیم کی اجازت دی تو کسی نے الخیر یونیورسٹی جیسی بے شمار یونیورسٹیوں کو جن کے ایک کیمپس کا الحاق ہوتا تھا مگر انہوں نے پانچ پانچ مرلوں میں اسکے فرنچائز دیکر لاکھوں سرکاری افسران کو ہر طرح کی ڈگری جاری کر دی۔
آج بھی نیب سمیت پاکستان کے تمام سرکاری محکموں اور نیم سرکاری اداروں میں لاکھوں افراد ان جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں۔ جبکہ روایتی نظام تعلیم میں بغیر پڑھے ڈگری حاصل کرنا خاصا جان جوکھوں کا کام ہوتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ سنٹرز میں نقل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی مگر دو سالہ کمپوزٹ سالانہ بی اے ‘ بی ایس سی یا ایم اے ‘ ایم ایس سی کا امتحان اچھے نمبروں سے کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ ایم اے انگلش اور ایم اے اکنامکس میں یونیورسٹی سالانہ امتحانات میں 60 فیصد نمبر لے کر فرسٹ ڈویژن حاصل کرنیوالے طالب علم خال خال ہی نظر آتے تھے۔ آج ایچ ای سی کی مہربانی سے متوسط اور غریبوں کیلئے یونیورسٹیوں سے کم فیس کے ذریعے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن ڈگریوں کو 2019 ء سے غیرقانونی قرار دیدیا گیا۔ اب انٹرمیڈیٹ کے بعد طالب علم سمسٹر سسٹم کے تحت پرائیویٹ اور سرکاری یونیورسٹیوں میں آٹھ سمسٹر پروگرام کے ذریعے گریجویشن کریگا۔ چند ایک مہنگی اور اچھے معیار کی یونیورسٹیوں کے علاوہ باقی تمام یونیورسٹیاں ہر قسم کے طالب علم کو چاہے وہ انٹرمیڈیٹ میں تھرڈ ڈویژن کیوں نہ ہو۔ حتی کہ فیل کیوں نہ ہوں اسے پچاس ساٹھ ہزار فی سمسٹر کے عوض داخلہ دے دیتی ہیں۔
اکثر طالب علم ان یونیورسٹیوں میں گریجویشن مکمل کر لیتے ہیں مگر ابھی وہ انٹرمیڈیٹ کے مضامین بھی پاس کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ایچ ای سی کے پاس کوئی میکانزم نہیں ہوتا ہے کہ وہ ان یونیورسٹیوں کی انرولمنٹ کو چیک کر سکے۔ اگر کوئی افسر چیک کرنے کی کوشش کرے تو اسکی مناسب خدمت کے عوض اُسے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ اب ایچ ای سی کے ترجمان نے جامعات سے کہا ہے کہ وہ ڈگری پروگرامز کی جگہ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کا اجراء کریں مگر پاکستان کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں نے ابھی تک ان پروگرامز کا اجراء نہیں کیا ہے۔ آج بھی پنجاب یونیورسٹی نے اپنے الحاق شدہ کالجز اور کانسٹی ٹیوٹ کو بی اے بی ایس سی اور ایم اے‘ ایم بی اے پروگرامز کو سالانہ بنیادوں پر جاری رکھنے کے خطوط بھیجے ہیں۔ اس پر جب میں ایچ ای سی کے ڈائریکٹر اکیڈمکس جناب رضا چوہان سے استفسار کیا تو انکا کہنا تھا ہم کئی سالوں سے جامعات کو کہہ رہے ہیں کہ وہ سمسٹر سسٹم کی بنیادوں پر ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کا آغاز کریں مگر سوائے گجرات یونیورسٹی باقی کسی نمایاں یونیورسٹی نے ان پروگرامز کا اجراء نہیں کیا ہے۔ لہذا 2019 ء کے بعد گریجویشن اور 2020 ء کے بعد پوسٹ گریجویشن ڈگریوں کو ایچ ای سی تصدیق نہیں کریگا۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ پنجاب میں ایچ ای سی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد نے ان سے کوئی مشاورت نہیں کی ہے۔ اسلام آباد ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق صوبوں میں ایجوکیشن کمشن غیر آئینی ہیں۔ وہ کسی بھی یونیورسٹی کی ڈگری کی تصدیق نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی فیڈرل ایچ ای سی کی منظوری کے بغیر پاکستان کی کوئی یونیورسٹی کسی قسم کے ڈگری پروگرام کا اجراء کر سکتی ہے۔ جن افراد کے پاس 2018 ء تک بی اے‘ بی ایس سی کی ڈگریاں ہیں وہ کسی بھی ایچ ای سی سے الحاق شدہ یونیورسٹی کے B.S پروگرام کے پانچویں سمسٹر میں داخلہ لیکر چار سمسٹر مکمل کر کے 16 سال کی گریجویشن مکمل کرنے کے اہل ہیں۔ اسکے متوازی وہ طالب علم جو اے لیول کرتے ہیں وہ اکثر برطانیہ کی ایسی یونیورسٹیوں کے پاکستان میں قائم کیمپسز میں 3 سالہ قانون معاشیات اور بزنس ایجوکیشن کی ڈگریاں لے لیتے ہیں۔
اب سمجھ نہیں آتی ہے کہ ایک لڑکا جو ایف اے ایف ایس سی کے بعد پاکستانی یونیورسٹی سے پانچ سال میں قانون میں گریجویشن کرتا ہے اور A لیول یاانٹرمیڈیٹ جسکے پاس کافی پیسے ہیں وہ لندن یونیورسٹی کے ایکسٹرنل سسٹم کے تحت اسلام آباد لاہور میں بنگلوں میں قائم ٹیوشن سنٹرز سے 3 سال کی ڈگری لے کر قانون دان بن جاتا ہے۔ ہماری ایچ ای سی نے نیب کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی ڈگری کو جائز قرار دینے کیلئے الخیر یونیورسٹی کی جاری کردہ 2011 ء تک کی تمام ڈگریوں کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسکے بعد وہ الخیر یونیورسٹی کی جاری کردہ ڈگری کی تصدیق نہیں کریگا۔ لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ 2011ء کے بعد اگر کسی مقدس گائے نے الخیر یونیورسٹی کی اپنے لئے یا اپنے بچے کیلئے تصدیق کرنے کا کہا تو پھر دوبارہ اس یونیورسٹی کی ڈگریوں کو قانون قرار دے دیا جائیگا۔ ایچ ای سی کو یہ بھی واضح کرنا ہے کہ لندن یونیورسٹی کی 3 سالہ ایکسٹرنل ڈگری ایل ایل بی کے برابر ہے یا نہیں؟ ہمارے تعلیمی نظام اور سیاسی نظام پر سقراط آ کر تجربے کرتا ہے۔
سابق چیف جسٹس نے گریجویشن کے بعد پاکستانی یونیورسٹیوں سے 3 سالہ ایل ایل بی ڈگری پر پابندی عائد کر دی۔ ایچ ای سی نے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی سالانہ ڈگریوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے مگر یونیورسٹیوں نے اپنے الحاق شدہ کالجوں کو اسکے متعلق کچھ نہیں بتایا ہے اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ ایچ ای سی کے حکم کیمطابق کب پنجاب یونیورسٹی‘ سرگودھا یونیورسٹی سمسٹر سسٹم کے تحت ایسوسی ایشن ڈگری پروگرامز خود بھی شروع کرینگے اور اپنے سے منسلک سرکاری اور غیر سرکاری کالجز میں اسکا اجراء کرینگے۔ پنجاب ایچ ای سی کا ترجمان کیمطابق انہوں نے چار سرکاری کالجوں میں ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام شروع کئے ہیں مگر انکا الحاق کس یونیورسٹی سے ہے۔ یہ کسی کو نہیں پتہ ہے کیا یہ ڈگری ایچ ای سی مانتی ہے اسکا بھی پتہ نہیں ہے جس ملک کی تعلیمی ڈگری شکوک و شبہات کا شکار ہوں تو اس کا مستقبل کیسے روشن ہو سکتا ہے۔