آبی مسائل کے حل میں واپڈا کا کردارواہمیت!

پانی کے منصوبوں بالخصوص کالاباغ ڈیم کے حوالے سے خیبر پی کے اور سندھ کی طرف سے اختلاف کیا جاتا ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ صوبہ خیبر پی کے نوشہرہ کا علاقہ کالاباغ ڈیم سے بری طرح متاثر ہوگا۔ حالانکہ 1987ء میں صوبہ سرحد کے مشورہ سے مقرر کئے جانیوالے عالمی آبی ماہر ڈاکٹر کنیڈی نے جن کا تعلق امریکہ سے تھا‘ اس حوالے سے اپنی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ کالاباغ ڈیم سے نوشہرہ کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ یہی نہیں! نوشہرہ میں جب بھی سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، اسکی وجہ دریائے کابل کی طغیانی تھا۔ صرف 1929ء میں جب دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم نہ بنا تھا اورایک گلیشیئر کے ٹوٹنے کی وجہ سے شدت کا سیلاب آیا تھا۔ اگر اس وقت بھی تربیلا موجود ہوتا تو سیلاب کا پانی تربیلا ڈیم میں جمع ہو جاتا اور نوشہرہ سیلاب سے تباہ نہ ہوتا۔ اب دریائے سوات پر مہمند ڈیم بننے کی وجہ سے دریائے کابل کی طغیانی کا مکمل بندوبست ہو جائیگا جس سے مستقبل میں نوشہرہ میں کسی قسم کے سیلاب کا خطرہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا ہے۔ اسکے ساتھ ہی صوبہ خیبر پی کے کو ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جنوبی پانچ اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں، لکی مروت اور کرک کی آباد کاری کا ضامن صرف کالاباغ ڈیم ہے۔
یہ ڈیم بننے کی صورت میں ان جنوبی پانچ اضلاع کو زمینی بہاؤ پر پانی دستیاب ہوگا۔ اسکے ساتھ ہی ایک بات اور نوٹ کر لینی چاہیے کہ اگر تمام دیگر ڈیم بنا لئے جائیں تو صوبہ خیبر پی کے اپنے حصہ کا 14% پانی جو آبی معاہدے میں مختص کیا گیا ہے، کبھی حاصل نہ کر سکے گا کیونکہ اسکے شمالی اضلاع مکمل آباد ہیں جبکہ جنوبی پانچ اضلاع کی آبادکاری صرف اور صرف کالاباغ ڈیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جہاں تک صوبہ سندھ کے اختلافات کی وجہ ہے۔ اس حوالے سے دو باتیں انتہائی اہم ہیں جن پر کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ سندھ کی طرف سے پہلا مطالبہ ساحلی علاقوں کے سمندر بردی کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
بلاشبہ یہ انتہائی اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے انٹرنیشنل ایکسپرٹس نے اپنی رپورٹ میں صفحہ 16 پر واضح کیا ہے کہ سمندری پانی سے بچاؤ کیلئے بیریئر کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ترقی یافتہ ممالک میں سمندر سے بچاؤ کیلئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے اور پاکستان میں اس حوالے سے کیا ہو چکا ہے؟ کراچی میں ساحل سمندر پر بڑے پشتے لگا کر کلفٹن وغیرہ کے علاقوں کو سمندر برد ہونے سے مکمل طور پر محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح ہالینڈ جو ایک جزیرہ نما ملک ہے جسکے اطراف میں سمندر گویا کہ چاروں طرف سے امڈتا ہوا نظر آتا ہے۔ انھوں نے ہالینڈ کو چاروں طرف سے پشتے بنا کر یوں مضبوط کیا کہ آج ہالینڈ گورنمنٹ برملا اظہار کرتی ہے کہ سمندر زمین کھا جاتا ہے مگر ہم نے سمندر سے زمین چھین لی ہے۔سندھ میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔
کراچی سے لیکر ساحل سمندر کے ساتھ کوسٹل ہائی وے تعمیر کی جائے تو ساحل سمندر کو نہ صرف ایک مضبوط پشتہ مل جائے گا بلکہ سمندر سے کچھ زمین چھین کر میٹھے پانی کی جھیل کی شکل دی جا سکتی ہے۔ کوٹری سے دریائے سندھ کو اتنا پانی فراہم کیا جائے کہ کوٹری سے ساحل سمندر تک نہ صرف واٹر وے بن جائے بلکہ تعمیر ہونیوالی اس کوسٹل ہائی وے کے سنگھم میں ایک جھیل بن جائے۔ اس طرح کوٹری سے نیچے اور سمندر کی کھاڑی کے ساتھ تمام ساحلی علاقوں میں میٹھے پانی کی سپلائی ممکن ہو سکے۔ دریائے سندھ کے آخر میں سمندر پر بڑے بیریئر تعمیر کئے جائیں تا کہ سیلاب آنے کی صورت میں دریا کے پانی کو سمندر میں نکال دیا جائے۔ اس طرح سندھ کا یہ زرخیز ترین ساحلی علاقہ نہ صرف سمندر بردی سے محفوظ ہوگا بلکہ میٹھے پانی کی فراہمی سے سمندر کے ہر قسم کے اثرات سے بھی چھٹکارا حاصل کر سکے گا۔سندھ کا دوسرا اعتراض پانی کی فراہمی کا ہے۔ اس حوالے سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ چشمہ سے پانی فراہم کرتے ہوئے انہیں دو سو میل دور گدو کے مقام پر پانی ملتا ہے۔ درمیان میں بے شمار موٹر پمپ لگے ہوئے ہیں جن کے ذریعے دریائے سندھ کے پانی کو استعمال کرکے کاشتکاری کی جاتی ہے۔ اس طرح صوبہ سندھ کو پورا پانی نہیں ملتا۔ سندھ کے اس اعتراض کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکے ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان کی آپس کی چپقلش پر بھی نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان ہمیشہ اعتراض کرتا ہے کہ اسے سندھ کی طرف سے پورا پانی نہیں ملتا جبکہ سندھ جواب میں پانی کم ملنے کی شکایت کرتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی عشروں سے چلا آ رہا ہے۔ اس کا تدارک کرنا انتہائی ضروری ہے۔ بلوچستان کو پٹ فیڈر کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے جو دریائے سندھ سے گدو کے مقام سے نکلتی ہے۔ اگر کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ پر بیراج بنا کر بلوچستان کو پٹ فیڈر کے بجائے یہاں سے پانی فراہم کیا جائے تو اس سے ایک تو بلوچستان اور سندھ کے آپس کا تنازعہ ختم ہو سکتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی کوٹ مٹھن بیراج کے Out Flow پر ٹیلی میٹری سسٹم کے ذریعے سندھ کو پانی کی فراہمی کا مکمل ریکارڈ رکھا جا سکتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوٹ مٹھن سے نیچے روجھان اور اسکے نزدیک کے علاقہ میں زیر زمین پانی کڑوا اور زراعت کیلئے ناقابل استعمال ہے۔ اس طرح کوٹ مٹھن پر بیراج بنا کر نہ صرف سندھ کا اعتراض ختم ہوگا، سندھ اور بلوچستان کے اختلافات ختم ہونگے بلکہ ضلع راجن پور کے جنوبی خشک بنجر علاقہ کو بھی سیراب کرنے کیلئے منصوبہ بندی ہو سکتی ہے۔ اگر بہتے ہوئے پانیوں کی مقدار کا اندازہ کیا جائے تو ہم ذرائع آب کے حوالے سے بہت خوش قسمت نظر آتے ہیں مگر پانی کے اندھادھند استعمال کی وجہ سے اس بے بہا پانی کو ضائع کر رہے ہیں۔ سندھ طاس کے مقابلہ میں مصر کی وادی زراعت کے اعتبار سے بہت پیچھے تھی مگر اسوان ڈیم بننے کے بعد صرف 37 ملین ایکڑ فٹ پانی سالانہ سے 33ملین ہیکٹر سے زائد رقبہ آباد ہو رہا ہے۔ باقی پانی اسوان ڈیم میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح دو تین سال بارشیں نہ بھی ہوں تو کاشتکاری کیلئے پورا پانی ملتا رہتا ہے۔ اسکے مقابلہ میں ہمیں 140 ملین ایکڑ فٹ سالانہ پانی دستیاب ہوتا ہے لیکن صرف 16 ملین ہیکٹر زمین آباد کی جا رہی ہے۔ اسکی وجہ صرف بے ڈھب اور فرسودہ پلاننگ ہے۔ کسی ادارے کے پاس کوئی ایکسپرٹی نہیں کہ وہ پانی کی فراہمی کو دیکھتے ہوئے ایسی پلاننگ کرے جس سے پاکستان کا ایک ایک انچ آباد کرنے کے علاوہ سمندر کی تباہ کاریوں سے بھی مکمل طور پر بچا جا سکے۔ وفاق پاکستان کی بنائی گئی نیشنل واٹر پالیسی اور صوبہ پنجاب کی بنائی گئی واٹر پالیسی میں کوئی ماسٹر پلان نہیں کہ ہم آبی مسائل سے کس طرح چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ بجا طور پر واپڈا ایک منظم ادارہ ہے لیکن اسکی کارکردگی کو منقسم کرنے کے علاوہ محدود کر دیا گیا ہے۔ (WAPDA) یعنی واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو اسکی معنوی ذمہ داری سونپی جائے تو جامع منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ اگر جدید دنیا کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے پاس اتنا وافر پانی ہے کہ نہ صرف چاروں صوبوں کی باقی ماندہ 17 ملین ہیکٹر بنجر زمین کو آباد کیا جا سکتا ہے بلکہ دریاؤں کو آبی گزرگاہوں کے طور بھی استعمال کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے بلکہ ہمارا انڈس ڈیلٹا بھی دنیا کے خوبصورت ترین ڈیلٹائوں میں شامل ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن