چند ہفتے قبل جنرل کے ایم عارف ملک راہی ٔ عدم ہوگئے۔ان کے انتقال کی خبر ملی تو نہایت افسوس ہوا اور ساتھ ہی یادوں کے دریچے کھلتے چلے گئے وہ انتہائی بااصول اور ضوابط کے پابندتھے اس کا تذکرہ آگے چل کر کرتے ہیں۔یادش بخیر ،اس زمانے میں ہائی کورٹ کا جج بننے کا طریق عمل یہ تھا کہ چیف جسٹس کی طرف سے نام تجویز کیا جاتا تھا۔ پھر گورنر کی طرف سے نام سفارش کیا جاتا تھا۔ اسکے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے نام تجویز کیا جاتا تھا۔ پھر اسکی سمری بن کے لاء منسٹری کے پاس جاتی تھی۔ وزیراعظم کا عہدہ اس زمانے میں نہیں تھا، اس لئے صدرِ پاکستان کی طرف سے تقرری کی جاتی تھی۔ ان مراحل سے گزرنا بہت کٹھن تھا۔ جس کا نام پیش ہوتا تھا، اسکے کردار و اطوار کا بخوبی جائزہ لیا جاتا تھا۔ اس کی انکم ٹیکس ریٹرنز دیکھی جاتی تھیں اور جس بات پر بہت سے لوگوں کیلئے یقین کرنا مشکل ہوگا، وہ یہ کہ ضیاء الحق کے دور میں جتنی تقرریاں ہوئیں، سب میرٹ پر ہوئیں۔
جسٹس شمیم حسین قادری چیف جسٹس تھے۔ بحیثیت وکیل وہ مجھے بہت پسند کرتے تھے۔ انکے ساتھ بڑا عزت و احترام کا تعلق تھا۔ جس دن وہ چیف جسٹس بنے، اسی دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ تم ہائی کورٹ کے جج بن جائو۔ میں نے بس اتنا کہا کہ سر یہ تو اللہ کے کام ہیں، اور خاموش ہو گیا۔
جنرل ضیاء خوش قسمت تھے کہ جنہیں میجر جنرل عارف کی زندگی بھر کی معاونت ملی ۔انہیں جنرل یحیٰی کے دور حکومت میں مارشل لاء آفیسر کی حیثیت سے کاروبارمملکت چلانے کا تجربہ تھاچنانچہ اس تجربے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل پر اُنہوں نے بحیثیت وائس چیف آف آرمی سٹاف ، بنیادی اوراہم کردار ادا کیا اور انہوں نے پیش آمد ہ معاملات و امور کو بہ حُسن و خوبی چلایا انہیں ایک بہت ہی اعلیٰ اور سخت فوجی آفیسر کے طور پر پہچانا جاتاتھا۔انہوں نے اپنے پورے کیرئیر میں کبھی بھی اپنے اخلاق اور اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انکی ممتاز خدمات کے پیش نظر ، انہیں ستارئہ بسالت اور دیگر بہت سے اعلیٰ سول اور فوجی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے شاعری کی طر ف بھی توجہ مرکوز کی اوروہ اپنی ذاتی سوانح اور فوجی امور سے متعلق تصانیف کے مصنف کی حیثیت سے فوجی مورخ بن گئے۔وہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ سات سال تک رہے۔اس حوالے سے انہوں کتاب ـ"Working with Zia ul Haq"لکھی جو اس دور کی تاریخ کو اجاگر کرتی ہے۔اس کتاب میں جنرل کے ایم عارف نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے سودو زیاں کی بات کی ہے۔وہ کہتے ہیں:میرا تعلق ایک ایسی نسل سے ہے جو سربلند بھی ہے اور مجرم بھی۔ سربلند اس لیے کہ اس نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا اور پاکستان تخلیق کیا اور مجرم اس لیے کہ اپنی نااہلی کی وجہ سے مشرقی پاکستان گنوا دینے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل کیا۔ ہماری ناپختگی کی یہ ایک روشن دلیل نہیں تو اور کیا ہے کہ 1971ء کے سانحہ کے صرف چھ سال بعد ملک ایک اور مارشل لا کے گڑھے میں دھکیل دیا گیا۔‘‘
آمدم بسرِ مطلب ، جسٹس شمیم حسین قادری نے میرا نام تجویز کر دیا۔ گورنر اور چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی میرا نام ریکمنڈ کر دیا۔ شریف الدین پیرزادہ اس وقت وزیرِ قانون تھے، ان کی مہرتصدیق بھی مل گئی۔ صدرِ پاکستان کے پاس جو سمری جاتی ہے وہ چیف آف سٹاف کے ذریعے پراسیس ہو کر جاتی ہے۔ اس زمانے میں جنرل کے ایم عارف چیف آف سٹاف تھے۔ انکے ساتھ ہماری عزیز داری تھی۔ ویسے بھی وہ نہایت نفیس اور انتہا درجہ کے با اصول تھے۔ سب ان کی عزت کرتے تھے۔ میرے نزدیک وہ jewel of Pakistan پاکستان کا ہیرا ہیں۔وہ ایسی صفات کے حامل تھے جواب ناپید ہوتی جارہی ہیں۔
جنرل کے ایم عارف نے اس سمری پر نوٹ لکھا کہ ارشاد صاحب سے میری عزیز داری ہے، اس لئے ان کے بارے میں تحقیق و تصدیق آپ خود کریں۔ جو فیصلہ آپ کو کرنا ہے ، کریں۔ میں اسکے متعلق کچھ نہیں لکھوں گا۔ایک سال تک میرے بارے میںتحقیق اور چھان بین ہوتی رہی اور پھر میری تقرری ہوگئی۔ مرحوم جنرل کے۔ایم عارف 6مارچ 2020ء کو گُردے کی بیماری کی وجہ سے آئی سی یو ، سی ایم ایچ لاہور میں انتقال کر گئے۔ اُنہیںتمام فوجی اعزازات کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔انکی تجہیزو تکفین میں ، میں نے بھی شرکت کی۔ ہسپتال میں داخل ہونے سے کچھ ہی عرصہ پہلے وہ میرے غریب خانے پر اپنے بچوں سمیت تشریف لائے۔نہائت ہی خوش گوار موڈمیں تھے البتہ ملک کی موجودہ صورتِحال سے خاصے پریشان تھے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے اُن کی رحلت سے پاکستانی قوم ایک بہت بڑے محب ِ وطن ، اصول پسند اور مفکر سے محروم ہو گئی ۔