پاکستان کی تاریخ صحافت کے ماتھے کا جُھومر بن کر یہ حقیقت تاابد جگمگاتی رہے گی کہ قیام پاکستان کے بعد ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنانے میں نوائے وقت اور اسکے بانیوں حمید نظامی اور مجید نظامی مرحومین نے تادم آخر جو جان توڑ جدوجہد کی پاکستان کے تصور کے خالق حکیم الامت علامہ اقبالؒ اور اسکے بانی حضرت قائداعظمؒ کے فرمودات اور تعلیمات کے مطابق پاکستان میں دو قومی نظریہ کی روشنی میں سیاسی ، ثقافتی ، سماجی اور اخلاقی اقدار کی آبیاری اور بقاء کی خاطر مخالفت کی تیز و تند آندھیوں میں صحافتی محاذ پر بیباکی و جرأتوں کے جو چراغ جلائے ایسے میں وقت کے کسی بڑے سے بڑے جابر حکمران اور طالع آزما کو بھی ایسی شکایت اور شکوہ کا موقع نہ ملا کہ میڈیا ملک میں حق و صداقت اور قومی اُمنگوں کے برعکس ایسے پروگراموں کی روایت پر عمل پیرا ہے جو ملک و قوم کیلئے قطعی طور پر بے سود ہیں۔ حق و صداقت اور اظہار رائے کی آزادی کے علمبرداروں نے ’’نوائے وقت‘‘ کو حریتِ فکر کو پروان چڑھانے کے ادارے کی شکل دینے میں جو کردار ادا کیا، اسکے ڈانڈے مولانامحمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان ، فیض احمد فیض اور آغا شورش کاشمیری سے ملتے ہیں جبکہ حمید نظامی اور معمار نوائے وقت مجید نظامی اسی سلسلے کی آخری کڑی تھے۔ مگر ان دونوں نے خارزار صحافت میں پھل اور پُھولدار نخلستان میں تبدیل کرتے ہوئے جن گنے چُنے اربابِ صحافت کی تربیت کی بلاشبہ وہ سبھی صحافت کے محاذ پر پاکستان میں سیاسی، ثقافتی ، دینی ، سماجی اور اخلاقی اقدار کی پاسبانی میں سرگرم عمل ہیں۔
ملک کے ایسے معروضی حالات میں الیکٹرانک میڈیا پر مختلف نوع کے پروگراموں میں جو دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے ، اس سے ملک میں صاحب الرائے کی اکثریت پوری طرح آگاہ ہے بلکہ دل گرفتہ ہے۔ مگر نقار خانہ ہمیں اپنی آواز کو طوطی کی آواز بننے کے خدشے کے تحت خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا ایسے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ملک کی عظیم اکثریت کی ترجمانی کرتے ہوئے ببانگ دہل کہہ دیا کہ کرنٹ افیئرز کے پروگرامز عوام کیلئے بے معنی ہو چکے ہیں۔ لوگ ان سے تنگ ہیں ایسے پروگراموں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ وزیر اعظم نے تو گویا حریت فکر کے متوالوںکی دل کی بات بھی بیان کرنے سے گریز نہ کیا ، کہتے ہیں کہ کرپشن چھپانے کیلئے میڈیا کو استعمال کیا گیا ماضی میں پلانٹڈ پروگرامز کیلئے اینکرز پر پیسہ استعمال ہوا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ شرف بھی حق و صداقت کے بے داغ علمبردار محترمہ رمیزہ مجید نظامی کی زیر ادارت روزنامہ نوائے وقت ہی کو حاصل ہوا کہ حریت فکر کی پاسبانی کا حق ادا کرتے ہوئے وزیراعظم عمران کی ان باتوں کو من و عن شائع کیا۔
اس حقیقت سے بھی اغماض ممکن نہیں کہ اگر یہی باتیں کوئی اور بھی اپنی زبان پر لاتا تو اینکرز پنجے جاڑ کر اسکے پیچھے پڑ جاتے۔ اختیار میں ہوتا تو تکہ بوٹی کر ڈالتے۔ تنقید و تضحیک کے تیروں سے اپنا ترکش بھرنے میں مصروف ہو جاتے اور بالآخر تان اس بات پر توڑنے ہی میں اپنی عافیت کی راہ نکالتے کہ وزیراعظم عمران خان کا ایسا کہنا آزادی صحافت پر حملہ ہے۔ حریت فکر پر قدغن ہے۔
حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ پرنٹ میڈیا میں قومی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے عوام کو ہر روز جن لوگوں کے رشحاتِ قلم سے مختلف موضوعات پر خیالات سے آگاہ ہونے کا موقع ملتا ہے۔ جہاں تک الیکٹرانک میڈیا کے کرنٹ افیئرز پروگراموں کا تعلق ہے، موضوع بحث گلی محلوں کی نالی نالوںکی تعمیر سے لیکر ملک کی خارجہ پالیسی کی تبدیلی یا آئی ایم ایف سے ملنے والی امداد حتیٰ کہ کرونا وائرس ایسی ہولناک بیماریوں کا سدِباب ہو‘ ان پروگراموں میں ناظرین کو ایک ہی شکلیں دیکھنے کو ملیں گی۔ ایسے ایسے لوگ جن میں بیشتر ملک کے جمہوریت کش طالع آزمائوں کے پروردہ ہونے پر ذرا جھجھک محسوس نہیں کرتے۔جن کا صحافت کے بارے میں مبلغ علم صرف اس حدتک ہے کہ انہوں نے اس کوچہ گردی کیلئے آمروں کے در کی درِ سوزہ گری کو ذریعہ بنایا۔
یہ بات کسی ایرے غیرے نے نہیں بلکہ ملک کے وزیراعظم عمران خان نے کہی ہے۔ جسے نوائے وقت نے گزشتہ دنوں اپنے صفحات کی زینت بنایا ہے کہ کرپشن چھپانے کیلئے میڈیا کو استعمال کیا گیا۔ پلانٹڈ پروگرامز کیلئے اینکرز پر پیسہ استعمال ہوا۔ ایسا کب ہوا؟…کیونکر ہوا؟ کیسے ہوا؟ الیکٹرانک میڈیا پر ایسے بزرجمہر کب اور کیسے اینکرز کی نشست کے وارث قرار پائے؟ اور ایسے عناصر کی فرعون مزاجی نے کیا کیا گل کھلائے؟ کس طرح ’’ٹیلنٹ ‘‘ کے راستے میڈیا پر بند رکھے؟ یہ لوگ کہاں سے چلے تھے اور کہاں تک جا پہنچے؟
وزیر اعظم عمران خان کے حقیقت افروز بیانات کی بنیادپر ضرورت اس بات کی ہے بلکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی کھیپ کے تمام عناصر کے اثاثوں کوکھنگالا جائے۔ جب پلانٹڈ پروگراموں کا راستہ تراشنے والوں کو احتساب کی گرفت میں لایا جا سکتا ہے تو ’’پلانٹ‘‘ ہونے والوں کو اس شکنجے میں کیوں نہیں کسا جا سکتا۔ کرنٹ افیئرز کے پروگراموں کو دھوم دھڑکنے کے ساتھ بوجوہ نذر ناظرین کرنے والوں کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ ملک کے عوام پر کرونا وائرس کی تباہیوں کے حوالے سے اس حقیقت کو طشت ازبام کرتے کہ کسی ملک یا عالمی ادارے نے پاکستان کی ایک ڈالر بھی مدد نہیں کی ۔ زرمبادلہ گر گیا۔ ٹیکس کی شرح کم ہو گئی۔ کاروبار بند ہو گیا۔ ایسی حالت زار پر قوم کو صبر، حوصلہ کی تلقین کا فرض تو بھول گئے۔ ملک کی لٹی پٹی وراثت میں ملنے والی صورتحال کے محرکات کا تذکرہ کرنے کی بجائے عوام کو گمراہ کرنے کے دانستہ پروگرام دکھائے گئے ، ایسے میں وزیراعظم عمران خان نے دکھی دل کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کی جن دکھتی رگوں کو چھیڑا ہے انہیں محض تڑپتے نہیں چھوڑنا چاہئے۔
کرپشن چھپانے کیلئے جو پیسہ استعمال ہوا۔ اگر ججوں ، جرنیلوں کو احتساب کا سامنا کرنا پڑا تو جرنلسٹ خواہ وہ الیکٹرانک میڈیا کے ہوں یا پرنٹ کے۔ ان کا کڑا احتساب بھی وقت کی ضرورت ہے۔ نانِ جویں کے محتاج اور سر چھپانے کی جگہ کے ادھورے خوابوں کی آخر کس الہ دین کے چراغ نے تکمیل کی۔ اب اسی حوالے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو ہی جانا چاہئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم اس کھری کھری پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔