بہت دنوں سے رمضان المبارک شروع ہو چکا ہے اس سے پہلے کرونا وائرس کے حملوں کی شدت نے پاکستانی عوام کو گھروں تک محصور کر دیا تھا اس سماجی فاصلوں کے دور میں باہر گھومنے پھرنے والے غائب ہو گئے۔ باغات، شاپنگ مالز، شادی ہال، سکول، کالج، جامعات، ریسٹورانٹس، قہوہ خانے سب کچھ بند ہو گیا ان چیزوں کے بند ہوتے ہی پنجاب کے وزیر اطلاعات بھی کہیں غائب یا بند ہو گئے ہیں۔کرونا اور رمضان المبارک کے ساتھ ہی ان کا غائب ہونا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ کہیں خدانخواستہ وہ کرونا کا شکار تو نہیں ہو گئے، کہیں قرنطینہ میں تو نہیں، بہت کوششوں کے بعد پتہ چلا کہ ایسا بھی کچھ نہیں ہے۔ ہمیں بہت تشویش ہے، فیاض الحسن چوہان کے خیر خواہ بہت پریشان ہیں کیونکہ ایسے مشکل وقت میں جب پنجاب کرونا کی لپیٹ میں ہے۔ اشیاء خوردونوش کی قلت ہے، ناجائز منافع خور حرکت میں ہیں، مہنگائی عروج ہر ہے، ہر دن کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، حکومت کو ہر پل درست معلومات میڈیا اور عوام تک پہنچانی ہیں اس کٹھن دور میں وزیر اطلاعات کے سامنے نہ آنے سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔
صوبوں کے وزیر اطلاعات نہایت متحرک ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات چھائے ہوئے ہیں ہر روز حکومتی اقدامات، مسائل اور وسائل کی تفصیلات عوام تک پہنچا رہے ہیں ان حالات میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اطلاعات نجانے کہاں ہیںیا مصلحتاً غائب ہیں یا کرونا کے خوف سے قرنطینہ میں ہیں۔ وہ ہمیشہ سے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا حقیقی چہرہ ہیں کہیں کہیں وہ خود کو عمران خان کا ٹائیگر بھی کہتے رہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ آئندہ چند ہفتوں میں آنے والی ممکنہ تبدیلی سے بچنے کے لیے وہ کہیں غائب ہو گئے ہیں یاد رہے کہ مختصر سے دور حکومت میں وہ دوسری مرتبہ وزیر اطلاعات بنے ہیں ۔ وہ دوبارہ وزیراعظم عمران خان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یوں دوبارہ اپنی پسندیدہ وزارت میں آ گئے انہیں کم از کم اس مشکل وقت میں سامنے آ کر اپنی ذمہ داری تو ادا کرنی چاہیے۔ یہ وقت ٹھنڈے کمرے میں بیٹھنے کا تو ہرگز نہیں ہے، یہ تو میدان عمل میں رہنے کا وقت ہے۔ یہ وزارتیں، عہدے، دفاتر اور سرکاری عملہ تو آنی جانی چیزیں ہیں اصل چیز تو عوامی خدمت اور سرکاری دفتر کا عوامی خدمت کے لیے بہترین استعمال ہے۔ کسی بھی وزیر کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھا رہے، سوشل میڈیا کے ذریعے زندہ رہنے کی کوشش کرے، جنگ کے وقت میں خیموں میں بیٹھ کر باتیں کرنے والے عوام کے خیر خواہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ عوام ضرور یاد رکھیں گے کہ جب کرونا کے خلاف جنگ جاری تھی ان کے منتخب نمائندے کہاں کہاں چھپے بیٹھے تھے۔ اخبارات و ٹیلی ویڑن چینلز دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ عوام مافیا کی غلامی میں ہے۔ کہیں کھانے پینے کی اشیائ کی قلت ہے، کہیں یوٹیلیٹی اسٹورز کے مسائل ہیں، کہیں سبزیوں اور پھلوں کے منہ مانگے دام وصول کیے جا رہے ہیں، کہیں کرونا کے مریضوں کو کھانا نہیں مل رہا کہیں غیر معیاری مل رہا ہے تو کہیں صفائی کے ناقص انتظامات مریضوں کے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں اور ان اہم مسائل کی موجودگی میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اطلاعات کا منظر سے غائب ہونا یقیناً جمہوری قوتوں کے لیے پریشان کن ہے۔ جمہوریت میں تو منتخب نمائندے مشکل میں اگلی صفوں میں عوام کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔
یاد آیا کہ آنے والے دنوں میں پنجاب کابینہ میں بڑی تبدیلی کے حالات بن رہے ہیں۔ درجن بھر وزراء کی تبدیلی کا امکان ہے۔ بعض وزراء کے محکمے تبدیل ہو جائیں گے اور کچھ کو گھر بھیج دیا جائے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ آٹھ دس نئے وزراء بھی کابینہ میں شامل ہو سکتے ہیں یوں نئے لوگوں کو وزارت چکھنے کا موقع ملنے والا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں گا کہ کابینہ میں ردوبدل ہو گا یا پھر وزراء کو گھر بھیجا جائے گا لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک اچھا کامبی نیشن بن نہیں سکا بار بار تبدیلیاں سلیکشن پر بھی سوالات اٹھا رہی ہیں اور کھلاڑیوں کی صلاحیت بھی مشکوک ہوتی جا رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون کون گھر جائے گا کون نیا آئے گا لیکن عوام کو اب اس تبدیلی میں کوئی دلچسپی نہیں رہی کیونکہ کھلاڑیوں کی تبدیلی یا رخصتی سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔