صنعتی اداروںسے برطرفیوں پر محنت کش خواتین سراپا احتجاج، مردوں کے مساوی اجرت دینے کا مطالبہ

لاہور (رفیعہ ناہید اکرام) ملک میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے درجنوں قوانین کی موجودگی کے باوجود پاکستان کی ایک کروڑ سے زائد محنت کش خواتین بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں جبکہ ’’کرونا وائرس سے پہلے بھوک سے مرجائیں گی‘‘ کی صدا بھی انہی دیہاڑی دار یا قلیل تنخواہ پانے والی محنت کش عورتوں کی طرف سے تواتر سے سنائی دے رہی ہے جن کیلئے لاک ڈاؤن کوئی آرام کرنے نت نئے پکوان ٹرائی کرنے یا فیملی کے ساتھ ریلیشن شپ کو بہتر بنانے کی نوید لے کر نہیں بلکہ بھوک کا خوف لے کر آیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں خواتین لیبر فورس کا 20فیصد ہیں، اس میں سے دس ملین غیر رسمی شعبے سے وابستہ ہیں۔ فارماسوٹیکل کمپنیوں، کپڑے کی صنعت، ملبوسات کی فیکٹریوں، کھیلوں کے سامان سمیت دیگر صنعتوں میں برسہا برس محنت کے باوجودبہت سی محنت کش خواتین کو لاک ڈاؤن کا بہانہ بناکر ملازمتوں سے فارغ کیا جارہا ہے یا وہ غیرمعینہ مدت تک بغیر تنخواہ کے گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ گھر مزدور، بھٹہ مزدور اور زرعی مزدور خواتین اورگھریلو ملازمائیں جبری مشقت ہی نہیںغلامی کی زندگی بسر کرنے پر بھی پر مجبورہیں، یہ خواتین محنت کش خواتین کا 80فیصد ہیں مگر رسمی مزدور نہ ہونے کی وجہ سے لاتعداد فوائد سے محروم ہیں۔ نوائے وقت سے گفتگومیں ہوم بیسڈ ورکرز کی تنظیم ہوم نیٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ام لیلیٰ اظہر اور ورکنگ ویمن آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر آئمہ محمود نے کہاکہ محنت کشوں کے تحفظ اور ترقی سے ہی دنیا کو پرامن اور محفوظ بنایا جاسکتاہے مگر عالمی وبا سے سب سے زیادہ مزدور اور محنت کش ہی متاثر ہوئے ہیں ،چھوٹی بڑی صنعتوں اور کارخانوں سے محنت کش خواتین کو نکالا جارہا ہے۔ کم از کم اجرت بڑھا کر تیس ہزار ماہانہ کی جائے، عورتوں کو مردوں کے مساوی اجرت ملنی چاہئے اور کام کی جگہوںپر انکے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، سوشل سکیورٹی کارڈ، میڈیکل اور اولڈ ایج بینیفٹ کی سہولت محنت کش خواتین کو بھی دی جائے۔ تحریک انصاف کی رہنما عنازہ احسان نے کہا کہ لاک ڈاؤن میںبھی وزیراعظم کی تما متر توجہ محنت کش طبقے پر ہے احساس پروگرام کے تحت کیش رقم اور لاک ڈاؤن میں جزوی نرمی بھی محنت کشوں کی مشکلات کم کرنے کیلئے کی گئی ، خواتین محنت کشوں کو حقوق کی فراہمی کیلئے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے گا۔ خواتین نسرین اور آسیہ نے کہا کہ کورونا لاک ڈاؤن سے مزدور عورتیں بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں ہم تو پہلے ہی پسا ہوا طبقہ تھے اب تو حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے ہیں بھٹوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کوبھوک، استحصال اور حق تلفی کے علاوہ جنسی ہراسانی کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ عشرت اور سعدیہ نے کہاکہ ہمارے چولہے ٹھنڈے ہوگئے ہیں حکومت صنعتی شعبے کو پابند کرے کہ وہ ہماری برطرفیاں روکے ورنہ ہم اور ہمارے بچے جیتے جی مر جائیںگے۔

ای پیپر دی نیشن