ملتان (تو قیر بخاری سے )جعلی ادویات کی بھرمار، جعلی اور زائدالمیعاد ادویات کھانے سے مریض موت کے منہ میں مسلسل جا رہے ہیں . ضلع ملتان کی مارکیٹوں میں بالخصوص نشہ آور ادویات،دو نمبر جعلی ادویات اور زائد المیعاد ادویات کی بھر مار ہو چکی ہے۔کف سیرپ ، گولیاں اور کیپسول اور مختلف ناموں کے نشہ آور سیرپ نوجوان ہی نہیں بلکہ عمر رسیدہ افراد بھی مسلسل استعمال کر رہے ہیں اور زائد المعیاد اور دو نمبر ادویات کھا کر اپنی موت کو قریب تر کر رہے ہیں جس وجہ سے شرع اموات زیادہ ا ور اوسط عمر 40/45سال رہ گئی ہے ضلعی انتظامیہ کی توجہ بار بار اس طرف کروائی جاچکی ہے مگر ذمہ دار ضلعی افسران سمیت بعض ملازمین مبینہ طور پر ساز باز کر کے سستی اور لاپرواہی سے کام چلا رہے ہیں ۔ ضلع بھر میں بیٹھے میڈیکل سٹو روں کے مالکان اورادویات بنانے والے افراد ایسی ادویات بیچ بیچ کر کروڑ پتی بن چکے ہیں غیر معیاری ادویات کے استعمال سے نوجوانوں کے جگر،گردے اور معدے بری طرح متاثر ہورہے ہیں ۔ ضلع ملتان میں دوسرے اضلاع کی نسبت کرائم ریٹ بھی زیادہ ہے۔ نوجوان ہی نہیں کالج کی لڑکیوں اور نوجوان خواتین میں بھی ان ادویات سے نشہ حاصل کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔زیادہ پیسہ کمانے کے چکر میں دو نمبر کمپنیاں اپنی غیر معیاری پروڈکٹس بنا کرمارکیٹوں میں فروخت کررہی ہیں نوجوان نسل مارکیٹ میں دستیاب کف سیرپ،ٹینکچر، کپیاں، گولیاں اور کیپسول استعمال کر رہے ہیں ۔ محکمہ صحت میں تعینات کرپٹ مافیا کی آشیر باد سے کلینکس اور ہسپتال بنا کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے پورے ضلع میں محکمہ صحت کی نا اہلی اور ذاتی طمع نفسانی کی وجہ سے عطائیوں کے خلاف سخت کاروائیوں کے واضع احکامات پچھلے دنوں سپریم کورٹ کی طرف سے بھی جاری کئے گئے مگر معزز عدالت کے احکامات کو بھی ہوا میں اڑا دیا گیا اور ایک بار پھر سے پہلے کی طرح ہی غیر معیاری ،ایکسپائری ڈیٹ، نشہ آور ادویات کی فروخت جاری و ساری ہے اور عطائی ڈاکٹر ز اور نیم حکیم بڑے دھڑلے سے اپنے مکروہ دھندے سے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اگر کوئی سائل ان عطائیوں کے خلاف محکمہ صحت کو شکائت کرتا بھی ہے تو اس کی شکائت کو نظر انداز کر دیا جاتا۔ محکمہ صحت کے سی ای او سمیت انسپکٹر ڈرگز بھی مسلسل خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں ضلع بھر میں میڈیکل سٹوروں پر عطائیوں کے کلینکوں پر کچھ ایسی ہی صورت حال ہے ہر جگہ غیر ممنوعہ گولیاں ،سیرپ اور کیپسول سرعام دیدہ دلیری سے فروخت کئے جا رہے ہیں نیچرل پراڈکٹس،آیورویدک پراڈکٹس وغیرہ کے نام سے سینکٹروں غیر رجسٹرڈ اور جعلی ادویا ت کی تو سرکاری ہسپتالوں کے گردونواح میں دھڑلے سے فروخت جاری ہے۔جعلی ادویات میں بھاری پانی شامل ہونے کی وجہ سے نکل،سکہ اور مرکری کے زہریلے ذرات بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ ان میں جو مخصو ص رنگ استعمال کیارہا ہے وہ بھی سخت نقصان دہ ہے۔ وہ مردوں میں جگر،آنتوں اور جسم کے دیگر حصوں میں کینسر کا باعث بن رہے ہیں جبکہ ان کے لگاتار استعمال سے عورتوں میں بھی چھاتی اور جسم کے دیگر حصوں میں کینسر ہو رہے ہیں۔