آج بھی مولانا فضل الرحمن کو یہ اُمید ہے کہ پیپلزپارٹی عید کے بعد ایک بار پھر پی ڈی ایم کا حصہ ہوگی مولانا کا یہ دعوی عید کے بعد کتنا درست ثابت ہوتا ہے یہ دیکھنا ہوگا جبکہ گذشتہ دنوں کراچی کے ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی کی کامیابی اور ن لیگ کی شکست نے ایک بارپھر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے مریم صفدر نے تحریک انصاف کے بعد پیپلزپارٹی پر دھاندلی کا الزام عائد کر دیا ہے جبکہ بلاول زرداری نے خان صاحب کے بعد مریم صفدر کو سلیکٹیڈ کا طعنہ دے دیا ہے اب یہ دونوں جماعتیں ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یقینا ایک دوسرے کو سخت الزامات اور نازیباں زبان سے نوازنے میں مد مقابل ہونگی یقینا ہم ایک باشعور قوم ہیں اور اب ہمیں یہ سمجھ لینا ہوگا کہ یہ اتحاد کسی بھی صورت عوام کو اس حکومت سے نجات دیلا نے مہنگائی کے خاتمے بنیادی عوامی حقوق کی بحالی کے لئے وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ یہ اتحاد کرپشن بچائو سزائیں معاف کرو ائو بیرون ملک فرار ہوجائوں کے نظریے پر وجود میں آیا تھا ذاتی
مفادات کا یہ اتحاد اب شاید دوبارہ یکجا نہ ہوسکے اور مولانا کے اسلام آباد فتح کرنے کہ دعوی کی طرح یہ دعوی بھی صرف دعوی ہی رہے جائے ۔یہ بات بھی کافی حد تک واضح ہے کہ پیپلزپارٹی کو موجودہ حکومت سے کوئی خاص خطرہ نہیں ہے کیوں پیپلزپارٹی ماضی میں جمہوریت اور آمریت کا ملک میں رہے کر سامنا کر چکی ہے البتہ ن لیگ کا ماضی اس حوالے سے کچھ اچھا نہیں رہا مشرف دور میں ڈیل کے زریعے جلاوطنی اور پھر خان صاحب کی موجودہ حکومت کے دور میں علاج کی آڑ میں ملک سے ن لیگ کی قیادت کا فرار ہوجانا اشتہاری قرار دیا جانا شاید ن لیگ کے لئے کوئی اچھی علامت نہیں، اس کی جماعت کا ہر سینئر رہنماء اس کی زبان بول رہاہے ملک کے جمہوری نظام کو متنازع بناکر وطن عزیز اور اس قوم کے ووٹ کی تضحیک کر رہاہے ووٹ کو عزت دو کا راگ الاپنے والے آج ملک بیرون ملک اپنے ملک کے قانون کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں۔افسوس کہ اس وقت ملک مسائل کی جانب گامزن ہے غیر جانبداراحتساب مئوثر قانون کی بالادستی اور کرپشن تحقیقات کے اداروں کی مضبوطی کا دعوی لے کر نیا پاکستان بنانے کا عزم لیے تحریک انصاف آج اقتدار کی کرسی پر براجمان تو ہوگئی ہے مگر تین سال گزر گئے ہیں مگر ہمیں غیر جانبدار احتساب اور ٹھوس شوائد کی بنیاد پر مئوثر سزائیں ہوتی نظر نہیں آرہی البتہ یہ ضرور دیکھا جارہا ہے کہ وہ بااثر مضبوط سیاسی شخصیات گرفتار ضرور ہورہی ہیں جنھوں نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا آج یہ کم ازکم قانون کی پکڑ میں کئی کئی ماہ تک نیب اور تحقیقاتی اداروں کی حراست میں موجود ہیں مگر یہ شخصیات چند ماہ جیل میں رہنے کے بعد باعزت ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں ۔تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے کیا عمران خان صاحب اقتدار سے پہلے یا آج برسرے اقتدار جو الزامات ان سیاسی شخصیات پر عائد کر رہے ہیں وہ صرف سیاسی انتقام ہے یا پھر تحقیقاتی اداروں سزائیںدینے والی عدالتوں کے نظام میں کمزوری ہے جو کچھ ثابت نہیں کر پارہی ہیں کوئی دو رائے نہیں کہ ۷۳ برسوں سے ہم نظام کی کمزوری اس نظام میں بہتر مئوثر اصلاحات کا راگ الاپ رہے ہیں مگر اس جانب کوئی شاید اس وجہ سے توجہ نہیں دے رہا کیوں کہ یہاں ہم سب کا دامن داغدار ہے ۔ہم کئی بار یہ عرض کر چکے ہیں کہ اگر ارباب اختیار اس ملک و قوم کے ساتھ سنجیدہ مخلص ہیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے اس ملک و قوم کو ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن کیا جائے تو صرف دو، اداروں میں بہتر مئوثر اصلاحات کا فوری آغاز کیا جائے نمبر ۱ پولیس کو سیاسی غلامی سے نجات دلائی جائے ،تحقیقاتی اداروں کو غیر جانبدار مضبوط اور بااثر بنایا جائے نمبر۲ عدالتی نظام میں فوری بہتر اصلاحات کی جائیں۔قانون کے نیچے سینکڑوں غریب قیدی جیلوں میں بہتر علاج سے محروم ہیں صبح شام ایک سزا یافتہ خاتون ملکی سلامتی کے اداروں کی دنیا بھر کے سامنے تضحیک کرتی ہیں ان اداروں کو پوری شدت سے للکارتی ہیں مگر اس ملک کا قانون خاموش دیکھائی دیتا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے ادارے آج بھی سیاسی غلامی پر مامور ہیں کرپشن کے سخت الزامات عائد ہونے کے باوجود ان کو عدالتوں میں بادشاہ سلامت کی طرز پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ ایک موبائل چور غریب کو زنجیروں میں قید کر کے جانوروں کی طرح کھینچ کر عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ہماری نظر میں اگر ہم کمزور بنیادوں پر احتساب کرنے کی کوشش کریں گے تو ایک دن احتساب ایک تماشا بن کر رہے جائے گا موجودہ حکومت جس بنیاد پر اقتدار پر براجمان ہوئی بد قسمتی سے آج خان صاحب اپنے دعوئوں کو پورا کرنے میں کافی حد تک ناکام رہے ہیںجس کا اعتراف گذشتہ روز خان صاحب خود کر چکے ہیں کہ ان سے بہت سے معاملوں پر غلطیاں ہوئی ہیں یہ ایک ا چھی روایت ہے کہ ہمارے حکمران اپنی غلطیوں کو تسلیم کر رہے ہیں مگر ساتھ ہی خان صاحب کو غیر جانبدار رہتے ہوئے دوست دشمن کے فرق کا خاتمہ کرتے ہوئے مئوثر مضبوط با اثر نظام کے تحت کڑا احتساب کرنا ہوگا تاکہ ملک میں غیر جانبدار شفاف احتساب اپنی منزل کو کامیاب سے پہنچ سکے۔