بالآ خر ایوان کی راہداریوں کی چہ مہ گوئیاں ختم ہوئیں ‘ کالعدم تحریک لبیک اور تحریک انصاف میں وقتی اور مصلحتی مذاکرات ہوگئے ‘نتائج نیتوں اور حالات پر منحصر ہیں البتہ ایوان کے جذبہ ایمانی کا امتحان شروع ہوچکا ہے اور دوسری طرف ہائیکورٹ کے تین رکنی بنچ نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں ضمانت پر رہا کر دیا ہے ۔اس رہائی کو اپوزیشن حق اور سچ کی فتح قرار دے رہی ہے اور تبدیلی سرکار نیب کو ہدف تنقید بنا رہی ہے اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو بیانیہ’’میں کسی کو نہیں چھوڑونگا ‘‘ بری طرح پٹ چکا ہے تقریباً ہرالزام ٹائیں ٹائیں فش ہوچکا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مبینہ طور پر جن لوگوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ان کے خلاف شواہد کب آتے ہیں جس سے یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جائیگا کہ فریقین میں سے اصل کرپٹ اور جھوٹا کون ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکمران متنازع رہنے کے عادی ہو چکے ہیں یا وہ خود انصاف سے کام نہیں لے رہے یا انکے ادارے انصاف سے کام نہیں لے رہے یہی دیکھ لیں کہ شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا ہر وہ اتحاد جو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے پہلے اس پر ریاستی طاقت کا کھل کر مظاہرہ کیا جاتا ہے بعد ازاں یوٹرن کے نام پر ڈور ڈھیلی چھوڑ کر پھر ایک ہی جھٹکے میں آواز بلند کرنے والوں کوسبوتاژ کر تے ہوئے اپنی مرضی کے فیصلے تھوپ دیے جاتے اور اپوزیشن دیکھتی رہ جاتی ہے اور اپوزیشن ہے کہ ہر وقت منفی کارروائیوں میں رہنے کی عادی بن چکی ہے اسی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام مافیاز ہمہ وقت بلیک میلنگ میں لگے ہوئے ہیں جس کاکھلا ثبوت یہ ہے کہ ماہ مقدس میں اشیائے خوردونوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے رمضان المبارک میں قیمتیں کنٹرول کرنے اورلمبی قطاروں کو ختم کرنے کیلئے صوبائی سیکرٹریز کو 28 اپریل تک مہلت دے دی ہے اور کہا ہے کہ شناختی کارڈ مانگنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اس طرح عوام کو بھکاری بنایا جا رہا ہے لہٰذا بہتر حکمت عملی اختیار کی جائے۔ ہم سوچ رہے ہیںکہ اس بے حسی کا خمیازہ تو عوام کو بھگتنا پڑتا ہے جبکہ کہنے اور لوٹنے والوں کی پانچوں گھی میں رہتی ہیں لیکن حقائق سے کہاں تک پہلو تہی کریںکہ موت کی دستکیں کہہ رہی ہیں کہ غلطی کی گنجائش نہیں ہے جبکہ ہمارے اقدامات گذشتہ برس کی طرح سوالیہ نشان ہیں ۔میڈیا چیخ رہا ہے کہ کورونا کیوجہ سے کیسزز اور اموات بڑھتی جا رہی ہیں، ہسپتالوں میں بیڈ کم پڑ گئے ہیں ، وینٹی لیٹر نہ ملنے سے لوگ مر رہے ہیںلیکن مسیحائی کا یہ عالم ہے کہ جان بچانے والی ادویات کی خریداری کو بند کر دیا گیا ، اینٹی بائیوٹک اور دیگر قوت مدافعت بڑھانے والی ادویات پر حکومتی کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے ،ویکسین شارٹ ہے اور لیبارٹریز مہنگے داموںلگا رہی ہیں یعنی علاج کو غریب کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے ۔کیا حالیہ وبائی ایام میںمہذب اقوام کا یہی وطیرہ ہے جو اس وقت ہمارا ہے ؟ ٹائیگر فورس کہاں ہے ؟ ادویات بلیک میں فروخت کرنے والے مافیاز کو کھلی چھوٹ کیوں حاصل ہے ؟ حکومت جان بچانے والی ادویات کی خریداری پر پابندی کیوں لگا رہی ہے ؟سوال یہ بھی ہے کہ مذکورہ عوامی مسائل کو کس نے اجاگر کرنا ہے‘ تقریباً ڈھائی سال کا عرصہ گزر گیا ہے آج تک پارلیمان نے دھینگا مشتی اور گالی گلوچ کے سوا کیا کیا ہے بلکہ اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ اگر جذبات میں آکر سپیکر کو جوتا مارنے کی دھمکی کوئی دے بیٹھے تو معذرت کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔درحقیقت عوام کو الجھا کر یہی پارلیمان بعض نہایت ضروری باتوں پر معنی خیز خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے جیسا کہ بچوں کی نصابی کتابوں سے سوائے اسلامیات کے باقی ہرمضمون سے سیرت اور مشاہیر اسلام کی زندگیوں کو ختم کر دینا ایک ایسا گھنائونا جرم ہے کہ جو ناقابل معافی ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں یہاں پر اقلیتوں کے حقوق بھی محفوظ ہیں مگر یہ سیکولر سٹیٹ نہیں بلکہ ایسی سٹیٹ ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی ہے اور اس میں اسلامی زندگی اور اسلامی نظریات کو افضل ترین گردانتے ہوئے اعلیٰ پاکیزہ عظیم ہستیوں کی زندگیوں کو بطور بہترین مثالی زندگی کے پیش کرنا اشد ضروری ہے اصل مقصد ہی عوام کو مثالی زندگیوں کو بطور نمونہ اختیار کرنے سے محروم کرناہے اور سچ تو یہ ہے کہ حکومت اور عوام کے مابین جتنے تنازعات ہیں وہ خواہ مذہبی ،سماجی ،معاشی یا اخلاقی ہوں ان سب کے بیج پارلیمان کے ممبران ہی بوتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں حق و باطل کو مسخ کیا جا رہاہے تبھی تو عوام بھی آئے روز ہر نام نہاد مسیحا کی آواز پر لبیک کہتے نظر آتے ہیں کہ شاید’’ ابن مریم ہوا کرے کوئی ۔۔میرے درد کی دوا کرے کوئی ‘‘یہ الگ بات کہ سیاسی مفاد پرست جانیں لٹانے والوں کو فراموش کر دیتے ہیں اور اندر کھاتے سب طے کر لیتے ہیں تبھی تو مذکورہ حالات میں اپنوں کے لاشے اٹھاتے ، مہنگائی اور ادویات کی کمی سے اپنے پیاروں کو سسکتے دیکھ کر عوام جس بیزاری کا اظہار کر رہے ہیںوہ کچھ ایسا تاثر ہے کہ وہ نظریں جھکائے کہہ رہے ہوں ! لوٹ لیا حالات نے ہم کو۔۔ تیرا جہاں آباد رہے ۔لیکن یاد رہے کہ مظلوموں کی بے آواز آہیں رائیگاں نہیں جاتیں۔
تیرا جہاں آباد رہے۔۔۔
May 02, 2021