پاکستان میں ان دنوں حلف کا سیزن چل رہا ہے اور تحریک انصاف اپنے ہی ہر جلسے کے خلاف اگلے جلسے کو پاکستان کا سب سے بڑا جلسہ قرار دیتی جا رہی ہے۔ حکومت بھی پے درپے حلف اْٹھانے کے نئے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے جیسے باپ بیٹے کا حلف اور حلف لینے کے لیے صدر ، گورنر میسر نہیں تو سپیکر قومی اسمبلی سے حلف۔ وزارت خارجہ کے حلف پر بھی بعض صحافی نما ترجمان ن اور پی پی پی میں صدارت کی رسہ کشی کی خواہش نما پشین گوئیاں کرتے رہے جب بلاول بھٹو زرداری کا بھی وزارت خارجہ کا حلف اْٹھانا طے تھا بس حلف اْنہوں نے سب کے ساتھ نہیں تنہا اْٹھانا تھا۔
گزشتہ تین سالوں سے امریکی اور پاکستانی طرز سیاست اور حکومت میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی صدارتی رْخصتی کی جان کنی اور وائٹ ھاوس سے نکلنا آسان قرار نہ پایا تھا۔ چھ جنوری 2021ئء میں ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی دارلحکومتی محل پر اْس وقت دھاوا بول دیا تھا جب امریکی صدارتی الیکشن کے ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری تھا ؛ اس فساد میں چار امریکی ہلاک اور 14 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے وہ فسادات اتنے بڑھے کہ ووٹوں کی گنتی کا پراسس مکمل کرنے کے لیے واشنگٹن کے اْس وقت کے مئیر میورٹل براون کو پندرہ دن کی ایمر جنسی اور کرفیو نافذ کرنا پڑا پھر امریکی نائب صدر اور سینٹ کے صدر کی مشترکہ صدارت میں امریکی صدارتی ووٹوں کی تصدیق کا عمل مکمل ہوا۔ جو بائیڈن الیکشن کے فاتح قرار پائے۔ اس امریکی الیکشن اور نتائج کی سنسنی خیزی بھی ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی گئی۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا جب کہ امریکی آئین کے مطابق سابق صدر کا نومنتخب صدر کی حلف برداری میں شرکت کرنا ضروری ہوتا ہے اور سات کروڑ امریکی ووٹ حاصل کرنے کے دعوے دار سابق امریکی صدر کسی صورت بھی اقتدار چھوڑنے اور اپنی شکست قبول کرنے کو تیار نہیں تھے ، پھر امریکی آئینی ادارے حرکت میں آئے اور ڈونلد ٹرمپ کو زبردستی وائٹ ھاوس سے نکالا گیا۔
بیس جنوری کو نئے امریکی صدر کی تقریب حلف برداری ہوئی جس میں نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان کی بھٹو فیملی کو مدعو کر لیا جبکہ اْس وقت بھٹو فیملی پاکستان کی قومی حکومت تو کیا اپوزیشن میں بھی نہیں تھی۔ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم اور جناب شہباز شریف اپوزیشن لیڈر تھے۔ تب بھٹو فیملی کے امریکی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے پاکستان کے اندر یہ قیاس آرائیاں شدت سے جاری ہو چکی تھیں کہ آئندہ پاکستان میں عمران خان کی حکومت چلنا اور اگلے الیکشن میں ان کا کامیاب ہونا اب مشکل ہو جائے گا۔ حالانکہ عمران خان حکومت کا ’’ ایک پیج ‘‘ اْس وقت تک سر چڑھ کر بول رہا تھا۔۔۔۔ لیکن امریکہ میں جو بائیڈن اقتدار کے سوا سال بعد ہی پاکستان سے ماورائی انداز میں ’’ایک صفحے ‘‘ کی عبارت غائب ہو گئی اور دوسرے صفحے پر ’’ دی اینڈ ‘‘ پرنٹ ہو گیا !!! پھر آئینی عدم اعتماد سے لے کر حلف برداریوں تک کئی آئینی بحرانوں کی سنسنی کی بھی سیٹی گم ہوتی رہی۔ اور سسپنس میں آخری لمحہ ہی آنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
بلاآخر پاکستانی اقتدار کا ریموٹ جناب آصف زرداری کے ہاتھ میں چلا گیا ، شریف فیملی کے آئینی ، عدالتی اور حکومتی راوئنڈ شروع ہو گئے جو اْن کے لیے کسی طور بھی نئے نہ تھے کیونکہ مسلم لیگ ن اس کھیل میں یکتا ہے۔ پاکستانی عدلیہ اور ن لیگ کے نشیب و فراز کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جب پہلی بار میاں نوازشریف کو صدر غلام اسحق خان نے 58 ٹو بی کے تحت وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا تھا تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ہی 1993ء میں اْنہیں بحال کر دیا تھا پھر 2017ء میں نسیم حسن شاہ کے داماد چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ کے دور میں دوبارہ میاں نوازشریف کی حکومت ختم کر دی گئی۔
اب میاں شہباز شریف وزیراعظم پاکستان کا حلف اْٹھا چکے ہیں اور ہفتے کو ایک طویل جدوجہد کے بعد میاں حمزہ شہباز شریف بھی واضح عدالتی احکامات سے پہلی بار پنجاب کی وزارت اعلی کے آئینی حلف سے ’’ مشرف یاب ‘‘ ہو چکے ہیں اس دوران پنجاب میں مسلم لیگ ن ، ق اور پی ٹی آئی کے صبر کے پیمانے مسلسل چھلکتے رہے اور چھلک چھلک کر کپڑوں کے ساتھ کردار بھی داغدار کرتے رہے لیکن وزارت اعلی بھی کوئی آسان منصب نہیں ہے ابتدا ہی سے حوادث اور بْحرانوں کی ٹریننگ کروا دی جاتی ہے۔ 2009ء میں صدر آصف علی زرداری صاحب نے میاں شہباز شریف کی وزارت اعلی ختم کر کے پنجاب میں سلمان تاثیر کا گورنر راج نافذ کر دیا تھا جس پر ن لیگ نے تب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی تھی وہ عدلیہ بحال تحریک کامیاب ہوئی ، گورنر راج ختم ہوا اور میاں شہباز شریف دوبارہ وزیراعلی پنجاب بحال ہو گئے تھے۔ تاریخ بڑی بے رحم ہے جو ہمیشہ سنگ دلی سے اپنے آپ کو دْہرا جاتی ہے۔ البتہ نومبر میں چیف صاحب کی ریٹائر منٹ کے بعد پاکستان میں الیکشن سرگرمیاں دیکھنے کے خواہش مندوں کو یاد رکھنا چائیے کہ امریکی صدر کے عہدہ کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔