ڈاکٹر علامہ راغب نعیمی
(ممتاز مذہبی سکالر)
سانحہ مدینہ منورہ پر ملک بھر کے جید علما کرام میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور انہوں نے بھی اس سانحہ عظیم پر سخت غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام کا ردعمل بھی نذر قارئین ہے۔
پیارے نبی اکرمؐ جب ظاہری طور پر صحابہ کرامؓ کے درمیان موجود تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے دربار کی حاضری اور آپؐ کی بارگاہ کی حاضری کے لیے تین بنیادی احکامات ارشاد فرما دئیے، پہلا تو یہ اللہ کے رسولؐ سے پیش قدمی نہیں کرنی، دوسرا یہ کہ اللہ کے رسولؐ سے بلند آواز کسی کی نہیں آنی چاہیے اور تیسرا یہ کہ اللہ کے رسولؐ جب اپنے حجرہ اقدس میں تشریف فرما ہوں تو باہر اونچی آواز میں آ کر آپؐ کو بلانا نہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے سورۃ الحجرات میں اللہ کے پیارے نبیؐ کے حضور حاضری کے آداب بیان فرما دئیے ہیں اور انہی بنیادی اقدامات کو لے کر مفسرین کرام زندگی کے تمام بنیادی پہلوئوں پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔
امام مالک کی عقیدت کا تو یہ عالم تھا کہ آپ مدینہ منورہ کی دیواروں کے ساتھ گھسٹتے ہوئے چلتے تھے مبادا آپ کا پائوں کسی ایسی جگہ پر نہ پڑ جائے جہاں آپؐ کے قدم مبارک کے نشانات موجود ہوں اورآپ ننگے پائوں مدینہ کی گلیوں میں چلا کرتے صحابہ کرامؓ آپؐ سے انتہائی پست آواز میں بات کرتے اور بسااوقات آپؐ صحابہ کرام سے فرماتے کہ اپنی آواز کو ذرا بلند کریں تاکہ مجھے معلوم ہو جائے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ آپؐ کے دربار میں حاضری کے لیے استغاثہ پیش کرنے والوں کے لیے لازم قرار دیا گیا تھا کہ وہ اونچی آواز میں استغاثہ پیش نہیں کرے گا۔ ایسی آواز جو وہاں آس پاس لوگوں کو پریشان کر دینے والی ہو، اسی طریقہ سے جب حاضری دیتے ہوئے کسی کی آواز رندھ جائے، ہچکیاں بندھ جائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی آواز کو بلند نہیں کرے گا کہ مبادا اس کی آواز سے آپؐ کے آرام میں خلل واقع ہو۔
یہ جو بات ہو رہی ہے وہاں یہ آوازے کسے جا رہے ہیں ہوٹنگ کی جا رہی ہے۔ یہ کہ آناً فاناً نہیں بلکہ کسی منصوبے کا حصہ ہے۔
اس شرانگیزی پر آمادہ ہو گیا انہیں نبی کریمؐ کی بارگاہ میں حضوری کا کوئی خیال نہیں آیا۔ ان کا یہ عمل ایسے گناہ میں لے جائے گا جہاں مسلمان کے ایمان کا خاتمہ ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے ان تمام افراد کو اللہ کے حضور معافی مانگنی چاہیے۔ اگر کوئی کسی کو چور کہہ رہا ہے تو کوئی زانی بھی ہو گا ہمیں اپنے آپ کو ان باتوں سے بچانا ہے۔
……………
ذمہ دار دنیا میں نشانِ عبرت اور آخرت میں اللہ کی پکڑ میں آئیں گے
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی
(مہتمم و شیخ الحدیث جامہ اشرفیہ)
یہ دلخراش واقعہ اور ایمان سوز حرکت انتہائی شرمناک، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کرکے اللہ کے غضب اوراس کے قہر کو دعوت دینے کے مترادف ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے انہوں نے کہا کہ روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم وہ پاکیزہ ،مطہر عزت و عظمت اور حرمت والی جگہ ہے کہ جہاں اونچی آواز سے اللہ رب العزت نے بولنے سے منع کیا ہیاور قرآنی حکم کے مطابق ایسا کرنے سے تمام نیک اعمال اور نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں وہاں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو بھی اونچا بولتے کی اجازت نہیں تھی انہوں نے کہا کہ اس افسوسناک واقعہ پر پوری امت مسلمہ خون کے آنسو رو رہی ہے انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک میں ستائیسویں شب کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور روضہ اقدس کے تقدس کی پامالی و بے حرمتی کرنے اور ان کی حمایت کرنے والے دنیا میں ہی نشان عبرت اور آخرت میں اللہ کی پکڑ میں ضرور آئیں گے انہوں نے کہا کہ اللہ کے غضب اور اس کی ناراضگی سے بچنے کے لئے پوری امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستانی اجتماعی توبہ و استغفار کر کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کریں۔
……………
مولانا طاہر اشرفی
(ممتاز عالم دین)
اس وائرس کو ابھارنے والے عناصر کا سر کچلنا ضروری ہے
سانحہ مدینہ منورہ پر غم و اندوہ اور شرمساری کی ایسی کیفیت ہے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آقائے دوعالمؐ کی بارگاہ میں حاضری کے لئے کس منہ سے وہاں جائیں گے؟ صدیوں میں ایسے بے ہودہ اور شرمناک مظاہرے کی مثال نہیں ملتی اس کی جتنی مذمت کریں وہ کم ہوگی۔ حکومت کو ان عناصر کیخلاف سخت ایکشن لینا چاہئے جس نے اس وائرس کو ابھارا ہے اس کا سر کچلنا اور سرکوبی کی اشد ضرورت ہے۔ پورا ملک سکتے کی سی کیفیت میں ہے کیا کوئی مسجد نبویؐ اور روضۂ اطہرؐ کے سامنے ایسے کسی سیاسی انتقامی غیر اخلاقی و غیر اسلامی اقدام کی جرأت کر سکتا ہے؟ ملک کی تمام مذہبی سیاسی سماجی پارٹیاں اس اقدام کیخلاف سراپا احتجاج ہیں وہ لوگ جو اس شرمناک فعل کے لئے آئے، استعمال ہوئے یا انہیں اس جانب لگایا گیا ان سب کے خلاف تادیبی کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔
…………………
مدینہ کے تقدس کو پامال کرنے والے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونگے
حافظ عبدالغفار روپڑی
(امیر جماعت اہل حدیث پاکستان)
…………………
مکہ اور مدینہ یہ دونوں شہر عظمتوں کے مینار ہیں خداوند قدوس نے ان دونوں شہر وں کو حرم قرار دیا یہاں کا ہر ذرہ لائق احترام ہے یہاں ہر وقت فرشتوں کا نزول اور برکتوں کا صدور ہوتا ہے ‘ ان دوپاک شہروں میں ادنیٰ بے احترامی بھی سنگین جرم ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جو اہلِ مدینہ کو خوف زدہ کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
آپؐ کو مدینہ منورہ سے بے پناہ محبت تھی چنانچہ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ جب کبھی سفر سے واپس ہوتے تو مدینہ منورہ کی دیواریں دیکھ کر اپنے اونٹ کو دوڑانے لگتے اور اگر گھوڑے یا خچر پر سوار ہوتے تو اس کو تیز کرتے اور یہ اس وجہ سے تھا کہ آپ کو مدینہ منورہ سے محبت تھی (بخاری شریف ) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبیؐ بطور دعا کے یوں فرمایا اے اللہ مدینہ کو اس برکت سے دوگنی برکت عطا فرما جو تو نے مکہ مکرمہ کو عطا فرمائی ہے (بخاری مسلم ) ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابوبکراور حضرت سیدنا بلال بخار میں مبتلا ہوگئے حضرت عائشہؓ رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورآپؐ کو ان کی بیماری کی اطلاع دی آپؐ نے یوں دعا فرمائی اے اللہ تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنادے جس طرح تو نے مکہ کو ہمارا محبوب بنایا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ مدینہ وہ عظیم شہر ہے جس کے راستوں پر فرشتے متعین ہے اور وہاں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوسکتا چنانچہ رسول اللہؐ نے فرمایا مکہ اور مدینہ کے علاوہ ہر شہر کو دجال روندے گا اور مکہ اور مدینہ میں سے ہر ایک کے راستوں میں کوئی راستہ ایسا نہیں ہے جس پر صف باندھے ہوئے فرشتے نہ کھڑے ہوں جو ان شہروں کی نگہبانی کرتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دھلوی نے اپنی کتاب جدب القلوب الی دیار محبوب میں لکھا ہے کہ حضورؐ کو مدینہ کی غبار تک سے محبت تھی آپؐ کے چہرے انور پر مدینہ کا غبار پڑھ جاتا تو اسے صاف نہیں فرماتے صاحب مظاہر حق نے لکھا ہے کہ حکیم مطلق اللہ جل شانہ نے اس شہر پاک کی خاک پاک اور وہاں کے میوہ جات میں تاثیر شفا ودیعت فرمائی ہے۔ ایسی مقدس سر زمین کی حرمت کو پامال کرنا اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس کی سنگینی کو الفاظ میں بیان کیا جانا ممکن نہیں ہے اور یہ حقیقت ہے کہ مدینہ منورہ کے تقدس کو پامال کرنے والے کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ حدیث شریف کے مطابق جو کوئی مدینہ منورہ کے ساتھ سازش کرتا ہے وہ اس طرح پگھل جاتا ہے جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔
(مشکوٰۃ شریف )
٭٭٭٭٭
شرانگیزی کرنے والوں کو بارگاہ نبویؐ میں حضوری کا خیال نہیں آیا؟ `
May 02, 2022