خوشحال غزنوی
افغانستان میں منشیات کے کاروبار سے اس کے پڑوسی ممالک کو بھی ہمیشہ اس کے برے اثرات کا سامنا رہا ہے۔ افغان وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت اپنے ہاں منشیات کے استعمال اور روک تھام کیلئے متعدد اقدامات کر رہی ہے۔ محکمہ انسداد منشیات نے ملک گیر مہم کے نتیجے میں اب تک 15 ہزار منشیات کے عادی افراد کو ملک کے مختلف علاقوں سے تحویل میں لے کر علاج کے لیے ہسپتالوں اور خصوصی بحالی مراکز بھیج دیا ہے۔ دارالحکومت کابل میں منشیات کے عادی افراد کی آماجگاہ’’پل سوختہ‘‘ تھا جہاں سینکڑوں نوجوان اپنی زندگیاں دائو پر لگائے نشے میں ڈوبے رہتے تھے۔ یہ جگہ گزشتہ بیس سال سے منشیات کے عادی افراد کے گڑھ تھا۔اب وہاں محکمہ انسداد منشیات کے اہلکاروں نے آپریشن کرکے تمام منشیات کے عادی افراد کو ہسپتال اور بحالی مراکز میں علاج کے لیے بھجوا دیا ہے۔
امارت کا یہ اقدام ظاہر میں تو معمولی آتا ہے لیکن اگر کوئی شخص وہاں جا کر خود دیکھ لے تو ضرور اسے ایک عظیم کارنامہ قرار دے گا کہ امارت اسلامیہ نے سینکڑوں افراد کو موت کے کنویں سے نکال کر زندگی کی شاہراہ پر ڈال دیا ہے۔ کیونکہ وہاں سینکڑوں نوجوان، بزرگ یہاں تک کہ بچے اور خواتین بھی نشہ کرنے آتے ہیں، ان میں سے ایسے افراد بھی تھے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ ایک نشئی جس کا علاج جاری تھا، نے میڈیا کو بتایاکہ وہ7 زبانیں جانتا ہے اور تعلیم یافتہ شخص ہے اور پھر اس نے شفاف انگریزی میں میڈیا سے گفتگو کی۔ ایک ڈاکٹر بھی اپنا غمل ہلکا کرنے کے بہانے نشے میں مبتلا ہوا تھا۔ سابق کٹھ پتلی انتظامیہ کے دور میں جب کوئی پل کے نیچے دیکھتا تو سینکڑوں نوجوان نشہ کرتے دکھائی دیتے، کوئی ہیروئن پیتا، کوئی نشے کے انجکشن لگاتا تو کوئی نشے میںدھت ہو کر بے سدھ پڑا دکھائی دیتا۔ منشیات کی خرید و فروخت اسی پل کے نیچے ہی ہوتی تھی، مختلف نشی افراد نے یہاں اپنے ڈھابے بنائے ہوئے تھے، رات کو روشنی کے لیے ان کے پاس ایمرجنسی لائٹس موجود ہوتی تھی۔
پل کے اوپر سے کٹھ پتلی حکومت کے ارکان اپنی لگژری گاڑیوں میں گزر جاتے تھے، جو اپنے اقتدار کے نشے میں ڈوبے رہتے اور پل کے نیچے بیٹھے افراد ہیروئن کے نشے میں۔ یقین نہیں آتا کہ یہ کسی ملک کا دارالحکومت ہے۔ وہ’’حکومت‘‘ جو درجنوں ممالک کے اربوں ڈالر کے سہارے وجود میں آئی تھی، جہاں اس لت کو روکنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے گئے اس ملک کا دارالحکومت منشیات کے عادی افراد کا گڑھ بن گیا تھا۔ دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں نشئی افراد ٹولیوں کی صورت میں جگہ جگہ نظر آتے تھے۔ پل سوختہ میں موجود سینکڑوں افراد کو دیکھ کر محسوس ہوتا کہ کیا کسی نے ان کو زبردستی نشے میں مبتلا کیا ہے یا زندگی کی تلخیاں انہیں موت کے اس کنویں میں لے کر آئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود منشیات کی شکات اور اس کے استعمال پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا؟اس کا ایک واضح اور سادہ جواب ہے کہ امریکیوں اور ان کے کٹھ پتلیوں سمیت عالمی سمگلروں کا گٹھ جوڑ منشیات کی شکات کو بڑھا رہے تھے۔ اس کا منفی نتیجہ ملک کے ہزاروں نوجوانوں کا منشیات میں مبتلا ہونے کی صورت میں نکلنا قدرتی امرتھا۔
عالمی سطح پر امریکہ خود منشیات کی سمگلنگ اور سمگلرز کی حفاظت کرتا رہا ہے۔1950ء میں امریکہ نے مشرقی ایشیا کی ’’سنہری تکون‘‘ سے افیون کی منتقلی، تیاری اور فراہمی کی اجازت دی جب وہ کمیونسٹ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے تائیون کے دستوں کو تربیت دے رہا تھا۔80ء کی دہائی میں سی آئی اے نے نکاراگوا میں کمیونسٹ مخالف کونٹرا باغیوں کو مالی امداد دی تھی یہ بھی بدنام زمانہ منشیات سمگلرز تھے’’شاید یہی وجہ تھی کہ 2009ء میں افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے اعتراف کرتے ہوئے افغانستان میں انسداد منشیات کی امریکی کوششوں کو ’’سب سے زیادہ فضول اور بے اثر پروگرام قرار دیا جسے انہوں نے 40 سالوں میں حکومت کے اندر دیکھا ۔ 2016ء میں افغان حکومت کی نائب وزیر صحت ناجیہ طارق نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’ہمیں منشیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے سالانہ دس ملین ڈالرز کی ضرورت ہے، جس میں سے 3 ملین ڈالر فراہم ہوئے ۔ سابق حکومت نے ان لاکھوں ڈالرز کا حساب بھی عوام کے سامنے نہیں رکھا گیا۔ ان کو کہاں خرچ کیا گیااور اس کے کیا نتائج نکلے؟
2002ء سے 2017ء انسداد منشیات کے نام پر 8 ارب ڈالر خرچ کیے گئے لیکن اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں افغانستان میںپوست کی کاشت گزشت سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ یاد رہے کہ میڈیا کے سامنے کچھ فصلیں ضرور تلف کی جاتی تھیں، لیکن وہ کل کاشت شدہ فصلوں کاایک فیصد بھی نہیں ہوتی تھیں۔
جب 3 اپریل 2022ء کو امارات اسلامیہ کی حکومت نے پوست کی کاشت پر مکمل پابندی لگائی ہے اور دوسری جانب منشیات میں مبتلا افراد کا علاج کرنے کی ٹھان لی ہے تو اس عظیم کام کو چین کے علاوہ کسی ملک یا میڈیا کمپنی کی طرف سے پذیرائی نہیں ملی نہ اس عظیم کام کو سراہا گیا ۔ سخت معاشی مشکلات کے باوجود موجودہ افغان حکومت نے پھر بھی یہ قدم اٹھایا۔ اس اقدام پر اسے سراہنے کے بجائے الٹا اس کی مذمت کی گئی، امریکی ویب سائٹ"Willson centre" کے ڈائریکٹر مارک گرین نے پوست کی کاشت پر پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ’’پوست کی کاشت کے خاتمے کے لیے طالبان کی مہم لاکھوں غریب کسانوں اور دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے مشکلات کا باعث ہے جو منافع بخش فصل سے اپنی کمائی پر انحصار کرتے ہیں، دیہاڑی دار مزدور افیون کی کٹائی سے ماہانہ300 ڈالر سے زیادہ کما سکتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب افغان آبادی کی اکثریت تباہ شدہ معیشت اور شدید خشک سالی کے تحت خوراک کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہی ہے،’’پوست پر پابندی‘‘ پورے مزدور برادری کے ذریعہ معاش کو تباہ کرنا ہے۔‘‘
افغانستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے اب تک ملک کے مختلف علاقوں سے 50 ہزار سے زائد منشیات کے عادی افراد کا علاج کیا جا چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمسایہ ملک میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے جس کی وجہ ملک میں بے روزگاری، نقل مکانی اور سب سے بڑھ کر سابقہ ’’حکومت‘‘ کی عدم توجہ ہے ۔یہ اشرافیہ منشیات کے ذریعے اپنے آقائوں سے محض ڈالر سمیٹتی رہی۔ حالانکہ عزم مصمم، اخلاص اور عوام سے دلی ہمدردی ہو تو تہی دست ہو کر بھی کسی کے زخم پر مرہم رکھا جا کتا ہے۔ محض اپنا منصب اور ذاتی مفادعزیزہو توڈالروں کی بارش میں بھی عوام کی زندگیاں بچانے کا کسی کو خیال نہیں آئے گا۔