عنبرین فاطمہ
اس سال عید الفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کی زورو شور سے پرموشن کی گئی ، دو بڑے بجٹ کی بڑی فلمیں ہوئے تم اجنبی اور ،منی بیک گارنٹی سے شائقین کو بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔ہوئے تم اجنبی میں میکال ذوالفقار اور سعدیہ خان نے مرکزی کردار ادا کئے جبکہ منی بیک گارنٹی میں فواد خان ، وسیم اکرم ،شنیرا کرم ، میکال ذاولفقار ، مانی ، ریمبو و دیگر نے مرکزی کر دار کئے۔ اہم بات یہ ہے ان دونوں فلموں کو بنانے والے ڈائریکٹرز کی بڑے پردے کے لئے یہ پہلی پہلی کوشش تھی۔ دونوں فلمیں ڈائریکشن کے اعتبار سے کافی اچھی ثابت ہوئیں ،ہوئے تم اجنبی کا میوزک بہت ہی شاندار رہا ، جبکہ منی بیک گارنٹی میں فواد خان ، شنیرا کرم اور وسیم اکرم کی اینٹری نے شائقین کو سینما گھر تک آنے پر مجبور کر دیا۔ تاہم دونوں ہی فلمیں امیدوں کے مطابق تو بزنس نہیں کر سکیں لیکن سینما گھروں میں لوگوں کا ہجوم ان دونوں فلموں کو دیکھنے کے لئے پہنچا۔ ان دونوں فلموں کے ساتھ دو اور اردو فلمیں بھی ریلیز ہوئیں جن میں دادل اور دوڑ کا نام شامل ہے۔ دادل فلم کی ڈائریکشن ابو علیحہ نے کی ہے جبکہ دوڑ کو ندیم چیمہ نے بنایا ہے۔ دوڑ کے فلمسازوں نے تو باقاعدہ طور پر کہا کہ ہماری فلموں کو شوز نہیں دئیے گئے اور ہمیں اگر کوئی شو دیا بھی گیا تو رات گئے کا شو دیا گیا ، ان کا یہ کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ سخت زیادتی کی گئی ہے جس کی وجہ سے ہماری فلم کچھ خاص بزنس نہیں کر سکی۔ندیم چیمہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسی طرح سلسلہ چلتا رہا تو کوئی بھی فلموں پر پیسہ نہیں لگائے گا۔ دوسری طرف دوڑ فلم کو دیکھنے والوں کی بات کریں تو وہ اس فلم کی کہانی سے زیادہ مطمئن نظر نہیں آئے اور کئی شوز تو ایسے رہے کہ ہال میں صرف آٹھ لوگ موجود تھے۔ دوڑ فلم کی کاسٹ شبستان سینما گھر میں فلم دیکھنے پہنچی تو اس روز صرف آٹھ لوگ سینما سے موجود تھے۔ دادل فلم کو پسند کیا گیا ،سونیا حسین کے کردار کو اس میں بہت زیادہ سراہا گیا۔انہوں نے حیا بلوچ کا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اس فلم کے ڈائیلاگز کافی بولڈ تھے جن پر دیکھنے والوں کو اعتراض ہوا۔ پنجابی فلموں میں لاہور قلندر ، بشیرا گجر ، ببرا گجر۔ ان تینوں فلموں میں سے لاہور قلندر اور بشیرا گجر کا بزنس بہتر رہا۔لاہور قلند سنگل سکرین کے ساتھ ملٹی پلیکس سینما زمیں بھی لگی گو کہ اسے شوز کافی کم ملے جبکہ بشیرا گجر اور ببرا گجر صرف سنگل سکرین سینما میں لگی۔ ان تینوں فلموں کو جتنا بھی دیکھا ایک خاص طبقے نے دیکھا۔ ہالی وڈ کی دونوں فلمیں جان وک اور ایول ڈیڈ نے پاکستانی فلموں کی نسبت بہت اچھا بزنس کیا۔ عید الفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں کا پہلے پانچ دن کا بزنس کچھ یوں رہا۔ منی بیک گارنٹی آٹھ کروڑ ، ہوئے تم اجنبی ساڑھے تین کروڑ ، لاہور قلندر پینسٹھ لاکھ ، داد ل پینتیس لاکھ ، دوڑ پندراں لاکھ، جان وک ساڑھے تیراں کروڑ ،ایول ڈیڈ دس کروڑ دس لاکھ۔ ہم نے آرٹیکل کی مناسبت سے آئی ایم جی سی گروپ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر شیخ عابد رشید سے خصوصی گفتگو کی۔ ان کا پاکستان کا سب سے بڑا ڈسٹری بیوشن کلب ہے جو کہ لوکل اور پاکستانی فلمیں لگاتا ہے۔ شیخ عابد رشید نے کہا کہ اس سال عید پر جو فلمیں ریلیز ہوئی ہیں ان کی جو بزنس رپورٹ ہے وہ تسلی بخش نہیں ہے۔ منی بیک گارنٹی بھی پہلے پانچ دن میں اتنا بزنس نہیں کر سکی جتنی توقع کی جا رہی تھی ، اس کو پہلے پانچ دنوں میں کچھ نہیں تو تیس سے پینتیس کروڑ بزنس کرنا چاہیے تھا۔ اس فلم کی کہانی کو لیکر ڈائریکٹر نے ایک نیا تجربہ کیا ہے جو کہ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ دادل کے ڈائیلاگز ایسے ہیں کہ جن کو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں سنا جا سکتا۔دوڑ اچھی فلم ہے لیکن اس میں بہت زیادہ قتل و غارت ہے۔ ہوئے تم اجنبی کافی سال پرانی فلم تھی ،انیس سو اکہترکے سانحہ کے پس منظر میں یہ ایک لو اسٹوری ہے لیکن لوگ ابھی اس موڈ میں نہیں ہیں کہ یہ سب دیکھیں۔ لاہور قلندر نے لکشمی چوک میں اچھا بزنس کیا لیکن پانچ دن کے بعد اسکا بزنس بھی نیچے آگیا۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام فلم میکرز سے التجاء کرتا ہوں کہ لواسٹوری اور اچھے میوزک کے ساتھ فلمیں بنائیں تاکہ ملٹی پلیکس سینماز ان کو چلائیں اور لوگ دیکھیں۔ اور میں بہت پر امید ہوں کہ ہمارے ہاں ایسی فلموں کا ٹرینڈ آئے گا جس میں لوگوں کو دلچپسی ہے۔ شیخ عابد رشید نے کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ عید پر ہی ساری فلمیں ریلیز کی جائیں ، آگے پیچھے بھی ریلیز کی جا سکتی ہیں۔ دا لیجنڈ آف مولاجٹ عید پر نہیں ریلیز کی گئی اور اس نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا بلکہ ابھی تک بزنس کررہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہالی وڈ کی فلمیں عید پر پاکستانی فلموں کے ساتھ ریلیز نہیں کی جانی چاہیے، ہالی وڈ کی فلمیں تو دنیا بھر سے بھی کمائی کر لیتی ہیں ، عید پر صرف پاکستانی فلم کو ہی لگنے دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سینما مالکان اگر فلم انڈسٹری کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں تو وہ عید پر ہالی وڈ کی فلمیں پاکستانی فلموں کے ساتھ بالکل نہ لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملٹی پلیکس سینما کے مالکان شدید پریشان ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر یہی حال رہا ، ہمیں اچھی اور معیاری فلمیں نہ ملیں تو پھر ہم سینما گھر بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ سینماز کا مہینے کا دو کروڑ خرچ ہے جو کہ ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔ گورنمنٹ کو بھی چاہیے کہ وہ بھی کچھ مدد کرے اور فلمی صنعت کی بحالی میں اپنا حصہ ڈالے۔ شیخ عابد رشید نے کہا کہ میں سینما مالکان سے یہ بھی التجاٗ کروں گا کہ وہ بھی انویسٹ کریں فلمیں بنائیں اس سے فلم انڈسٹری کو سہارا ملے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بلال لاشاری بہت اچھے ڈائریکٹر ہیں انہوں نے ثابت کیا ہے وہ ایک فلم بنا کر بیٹھ نہ جائیں بلکہ مززید فلمیں بنائیں۔ ہمایوں سعید کو بھی چاہیے کہ وہ ہر سال کم ازکم دو فلمیں بنائیں اور ریلیز کریں۔ سب مل جل کر کام کریں گے تو فلم انڈسٹری سروائیو کر سکے گی ورنہ حالات خراب ہی دکھائی دے رہے ہیں۔