پاکستان میں سفید پوش طبقہ رُل گیا

دْہائی ہے ایسا مہنگائی کا طوفان  سروں پر مسلط ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور شیطان کی آنت کی مانند بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی گردش نے سفید پوش طبقہ کو ننگا کرکے رکھ دیا ہے۔یہ وہ طبقہ ہے جو عصر حاضر میں  اپنے خراب حالات کسی گناہ کی طرح چھپا رہا ہے۔  تابش دہلوی کے اشعار حالات کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں
 چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر 
  پاؤں ڈھکتا ہوں تو سر کھلتا ہے
قارئین چند ماہ قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس نے اذہان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک ہینڈ فری بیچنے والا مفلس شخص بڑے بہادر لہجے میں جذبات پر قابو پاتے ہوئے حکومت سے نالاں تھا کہ مہنگائی اتنی ہے اور کمائی صفر کرایہ ادا نہیں ہوتا ،ایک وقت کی روٹی کھا لیتے ہیں اور دوسرے لمحے کا کچھ علم نہیں کہ فاقہ ہوگا یا کچھ لقمہ مل جائے گا۔ جب بچوں کی سکول کی فیس کے بارے میں استفسار کیا گیا تو وہ اعصاب پر قابو نہ رکھ پایا اور کہنے لگا کہ "میرے بچے چھوٹے ہیں ، دودھ پینے کی عمر میں انہیں زبردستی روٹی کھلاتا ہوں جس سے ان کا پیٹ خراب رہتا ہے"۔  
 ذہنوں پر صدموں کا بوجھ لیے
  ہم  نے  مرنے  تک تو جینا ہے
حالات اس قدر مخدوش ہو چکے ہیں کہ سفید پوش طبقہ 2023 میں دو دھاری تلوار پر چل کر زندگی گزار رہا ہے۔ عیدین کے تہوار، شب برات ہو یا پھر کوئی خوشی و غم کا موقع، ایسے افراد کو بس یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ انکا ا?ؤٹ ہونے والا بجٹ کیسے ان کے قابو میں آئیگا؟ درحقیقت انکی فکس آمدن سے تو مہینے بھر کا راشن، بچوں کی فیسیں اور دیگر ضروریات زندگی چل رہی ہوتی ہیں۔ مزید برآں  اضافی اخراجات بھونچال مچادیتے ہیں۔ زندگی ہے ان گنت ضرورتیں ہیں۔ بوڑھے والدین کی ادوایات کہاں سے پوری ہونگی جہاں 20 فیصد اضافہ کی منظوری دی جا چکی ہے؟؟؟ہر ہر چیز کو مہنگائی کی آگ لگی ہے۔ملک کا پتہ نہیں لیکن سفید پوش طبقہ دیوالیہ ہو چکا ہے۔ یہی سفید پوش طبقہ اپنے خاندان کا بھرم قائم کرنے کے چکر میں کسی پر اپنی تنگ دستی ظاہر نہیں کرتا۔ یہ رکھ رکھاؤ کے حامل ، وضع داری کو قائم رکھنے والے اور اچھے حالات میں پلے بڑھے ہوتے ہیں۔ معاشرے میں لوگ ان کے خاندانی پس منظر کی وجہ سے ان کی عزت کرتے ہیں اور اسی ساکھ کے سبب ان کی بات کو کافی حد تک مان بھی لیا جاتا ہے۔ نسل در نسل سنتے چلے آ رہے ہیں کہ قریب ہے کہ فقر و فاقہ انسانیت کو کفر تک لے جائے۔ 
 لیکن اب مشاہدے میں آ رہا ہے کہ جو لوگ محنت کرکے خاندان کا پیٹ پال رہے تھے۔وہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔ اخراجات ان کے صبر کا پیمانہ لبریز کرتے جا رہے ہیں۔ گداگروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے خدوخال اور مانگنے کے طریقوں پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی پیشہ ور بھکاری نہیں بلکہ ان میں کثیر تعداد مجبور سفید پوش بزرگ و خواتین کی ہے۔ ہر ٹھیلے، فوڈ پوائنٹ، مارکیٹ کے باہر یہ "مجسمہ مفلسی" بنے ہوتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ پیشہ ور بھکاری نہیں مگر بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتے۔ درباروں پر ان کا جم غفیر کھانے کی غرض سے رہنے لگ گیا ہے۔ کسی فیکٹری ایریا میں جہاں خیراتی دال روٹی بٹ رہی ہو وہاں آدم ہی آدم نظر آتا ہے گویا رائیونڈ کا اجتماع ہو رہا ہو۔
کچھ لوگ ابھی بھی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی "خودی" پر آنچ نہیں آنے دی۔ لیکن حالات کی زد میں زندہ لاش ہیں۔ آپ قیافہ انہیں ان کے چہروں سے ہی پہچان لیں گے وہ اشیاء تو بیچتے ہیں مگر لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر تسبیح بیچنے والا، کنگھی بیچنے والا، نمکو دال والا، بچوں کے پلاسٹک کے کھلونے بیچنے والا و دیگر۔۔۔ دن میں چند اشیاء بیچنے سے ان کے گھر کا سرکل کیسے چلتا ہوگا۔؟؟؟ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ امداد صرف ان لوگوں تک پہنچتی ہے جو مانگنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ ہمیں ڈھونڈ کر ان سے ان کی مالی معاونت کرنی چاہیے۔ اگر سفید پوش طبقہ 10 روپے کی چیز 15 میں فروخت کرے تو خدارا ان کے ہاتھوں لٹ جایا کیجئے کیونکہ مخلوق خدا کا کنبہ ہے۔ پتہ نہیں خالق کائنات  آپ کے کس امر میں راضی ہو جائے۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، 
بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اْس کا بندہ بنوں گا 
جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...