منور انجم مرنجاں مرنج قسم کے انسان ہیں ،ان سے ذاتی طور پر دیرینہ تعلقات استوار ہیں ۔وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی تشہیری مہم کے انچارج ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ میرا واٹس ایپ کا ان باکس پارٹی کی انگلش اور اردو خبروں سے بھر دیتے ہیں ۔میں نے ایک دن ان کے سامنے تجویز رکھی کہ بلاول بھٹو کی حکومتی اور سیاسی کارکردگی لائقِ داد ہے ۔آپ لوگ انھیں اگلے وزیر اعظم کے لیے امید وار کیوں نہیں بناتے۔ ان کا جواب تھا کہ آپ پہل کریں ،ہم آپ کے پیچھے آمین کہیں گے ۔
میں نے بتایا ہے کہ منور انجم سے میرے ذاتی تعلقات ہیں ،ایک مرتبہ انہوں نے اپنے بیٹے کے ولیمے کی تقریب میں مدعو کیا ۔میں شادی بیاہ کی تقاریب میں شریک نہیں ہوسکتا ،کیونکہ میں صرف گھر کا پرہیزی کھانا کھا سکتا ہوں ۔مگر میں منور انجم کو انکار نہ کر سکا اور ایئر پورٹ کے سامنے عبدالعلیم خان کی سوسائٹی کے ایک وسیع پارک میں ان کے بیٹے کی تقریب ولیمہ میں شرکت کی ۔اسے میں ولیمہ تو نہیں کہتا ،یہ ایک بہت بڑا سیاسی اجتماع تھا، جس میں ملک بھر سے پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ موجود تھی ۔ان کے احباب بھی ہزاروں کی تعداد میں تھے ۔میں سید قائم علی شاہ صاحب کے پاس کھڑا تھا۔منور انجم مجھے دیکھ کر وہاں آگئے ۔میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور رسم ِدنیا کے مطابق انہیں سلامی پیش کی ۔ انہوں نے سب کے سامنے میرا لفافہ کھولا اور اعلان کیا کہ وہ آج ایک صحافی سے پیسے لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔اس پر وہاں موجود سب لوگوں نے قہقہہ بلند کیا ۔منور انجم سے اسی طرح بھائیوں جیسے تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ قائم رہے اور اب بھی ان سے روزانہ کا رابطہ استوار ہے ۔انہوں نے تو بلاول بھٹو کے لیے کوئی بیانیہ ترتیب نہیں دیا ۔مگر میں بلاول بھٹو کو سنجیدگی سے اگلا وزیر اعظم دیکھ رہا ہوں ۔ حامد میر نے زرداری صاحب کا ایک لائیو انٹر ویو کیا ،جس میں انہوں نے زرداری صاحب سے پوچھا کہ کیا اگلا وزیر اعظم سندھ سے ہو سکتا ہے ۔ زرداری صاحب کا مختصر جواب تھا ،کیوں نہیں ہو سکتا، ضرور ہونا چاہئے ۔بعد میں زرداری صاحب کا ایک اور انٹر ویو نشر ہوا تو زرداری صاحب سے پھر پوچھا گیا کہ کیا بلاول بھٹو اگلا وزیر اعظم ہو سکتا ہے ۔زرداری صاحب نے کہا کیوں نہیں !بلاول ایک سنجیدہ امید وار ہے ۔
میں ذرا پیچھے کی طرف لوٹتا ہوں ،2008ء کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی ،جناب آصف علی زرداری منصب صدارت پر فائز تھے، انہوں نے سیاسی چھکے مارے ،مشرف کو رخصت کیا اور اٹھارویں ترمیم کا تاریخی کارنامہ سر انجام دیا ۔انہیں کئی سنگلاخ تجر بوں سے واسطہ پڑا ،مگر وہ اپنی صدارتی ٹرم مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ان دنوں میڈیا کے ایک دوست احمدریاض شیخ کے صاحبزادے باسط ریاض شیخ ایوان ِ صدر میں مشاورت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔کہنے کو وہ زرداری صاحب کے پر سنل سیکرٹری تھے لیکن در اصل وہ کم سن بلاول بھٹو کے اتالیق ہونے کا نازک فریضہ انجام دے رہے تھے ۔میں نے بلاول بھٹو کو کم سن لکھا ہے جبکہ ان دنوں جناب حسن نثار نے کچھ کم سن سیاست دانوں کے اوپر ایک کالم لکھا اور ان کے لیے چوسنی گروپ کی اصطلاح استعمال کی ۔ان کا کہنا تھا کہ مونس الٰہی ،بلاول بھٹو،حمزہ شہباز اور مریم نوازسیاست کے اس چوسنی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ مگر اس بات کو اب بارہ ،پندرہ سال گزر چکے ہیں ۔یہ چوسنی گروپ اب بڑے سیاست دانوں کی صف میں شامل ہو گیا ہے ۔مونس الٰہی کی پھرتیاں دیکھنے کے لائق ہیں ۔ مریم نواز نے اپنے والد کی گدی سنبھال لی ہے اور بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کی میراث کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔حمزہ شہباز بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا جھولا جھول چکے ہیں، مونس الٰہی اور مریم نواز دوسری نسل کے سیاست دان ہیں جبکہ بلاول بھٹو آزادی سے قبل سر شاہنواز ،ان کے بعد ذولفقار علی بھٹو پھر نصرت بھٹو اور پھر اپنی والدہ بے نظیر بھٹو شہید اور اب جناب زرداری کی سیاسی میراث کے مالک ہیں ۔انکی سیاسی تجوری گونا گوں تجربات کے ذخیرے سے بھری ہوئی ہے ۔ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر شہید کیا گیا جبکہ ان کی نانی نصرت بھٹو نے قذافی سٹیڈیم میں پنجاب پولیس کی لاٹھیا ں کھائیں اور پیشانی کے لہو سے لاہور کی سیاسی سرزمین کو سینچا ۔ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹوکو دہشت گردوں نے بے دردی سے شہید کیا اور ان کے والد جناب زرداری جھپٹنا ،پلٹنا، پلٹ کر جھپٹناکے انداز میں سیاسی کارنامے سر انجام دیتے رہے ۔اگر زمین کسی گائے کے سینگوں پرکھڑی ہے تو آج کی سیاست آصف علی زرداری کے سہارے کھڑی ہے۔عمران خان کو حکومت سے بھگانا ،اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور پھر اس کی حکومت تشکیل دینا آصف علی زرداری کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے طور پر اپنی سیاست چمکائی اور عوام سے اپنا رابطہ مضبوط کیا ۔وزارت خارجہ کا منصب سنبھال کر انہوں نے ایک دنیا کے سربراہوں سے قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم کرلیے ہیں ۔بلاول کو وزارت چلانے کا بہت کم عرصہ ملا ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے حکومت میں پانچ سال گزار لیے ہوں ۔اس دوران ایک لمحے کے لیے بھی نچلے نہیں بیٹھے ۔یوں لگتا تھا جیسے دنیا کے کئی دار الحکومت ان کے سامنے پلکیں بچھائے انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار بیٹھے تھے ۔وہ بلاول بھٹو جو برطانیہ سے فارغ التحصیل ہوا ،جسے اردو کی شد بد بھی نہ تھی، وہ آج روانی سے اردو میں تقریریں کر رہا ہے ۔کئی بار اس سے لطیفے بھی سر زد ہو جاتے ہیں لیکن سیاسی میدان میں تو ہر سیاستدان کی زبان کبھی نہ کبھی پھسل جاتی ہے۔بلاول بھٹو آج سیاست اور حکومت کی بھٹی کی تپش سے سونا بن چکے ہیں ،آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس کے طور اطوار صیقل ہو چکے ہیں۔ وہ سیاسی وخارجہ امورکے تجربے کی دولت سے بھی مالا مال ہے ۔میثاق ِ جمہوریت کی رو سے اگلے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کرنے کی باری ہے اور آثار بتاتے ہیں کہ جناب آصف علی زرداری اپنے ہونہار بیٹے کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے میں کامیاب ٹھہریں گے ۔لوگ زرداری کے دور کو یاد کرتے ہیں، خاص طور پر تنخواہ دار طبقہ جن کی ما ہانہ تنخواہ دُگنی ہو گئی، وہ ہاتھ اٹھا کر پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کی دعائیں کر رہا ہے ۔لیجئے ، میں نے چودھری منور انجم کو ایک بیانیہ فراہم کردیا ۔
٭٭٭