*سارا کمال طبلے کا ہے*

کالم:لفظوں کا پیرہن تحریر:غلام شبیر عاصم 

بڑے بڑے امیروں کبیروں،چوہدریوں، راٹھوں اور فیکٹری مالکان کے ساتھ بیش قیمت گاڑیوں میں سفر کرکے دیکھا ہے۔کسی ٹریفک اشارہ پر گاڑی رکی تو کئی ٹانگ یا بازو کٹے معذور واقعی خیرات کے حقدار بھیک مانگتے ہوئے گاڑی کے شیشے کے پاس آکر کروڑ پتی چوہدری صاحب کی گویا زنجیرِ در ہلا کر صدا کرتیہیں تو صاحب ایک نظر ان کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ٹریفک کا اشارہ کْھلتے ہی معاف کرو کہہ کر ایکسیلیٹر دبایا اور گاڑی گولی کی رفتار میں منزل کی طرف روانہ۔اکثر بازاروں،چوکوں اور فلائی اوور برجز پر چڑھتے اترتے ہی کئی معذور خواتین و حضرات،بوڑھے جوان اور بچے خیرات کے لئے ہاتھ پھیلا کر سوال کررہے ہوتے ہیں۔لیکن لوگ ایک نظر ڈالے بغیرخاموشی سے یا معاف کرو،اللہ بھلا کرے کہہ کر گزر جاتے ہیں۔یا کوئی بڑی دلیری،رحم دلی اور خوف خدا سے کام لیتا ہے تو پانچ دس روپے یا چار پانچ روپیکی ریزگاری،ٹھیپے وغیرہ دے کر گزر جاتا ہے۔یعنی ہم لوگ اللہ پاک اور اس کے رسول? پاک کے نام پر مشکل سے موڈ بننے پر دس بیس روپے دے دیتے ہیں۔اونٹ سے چھننی اتارنے والے محاورہ کو عملی شکل دیتے ہوئے اس ہوش ربا مہنگائی کے دور میں بھکاری کو پانچ دس روپے دے کر اونٹ کے منہ میں زیرہ والے محاورہ کی تکمیل کرتے ہیں۔بلکہ تذلیل کرتے ہیں۔ایک حضرتِ انسان کو اونٹ والے محاورے کی نکیل ڈال کر چلتے بنتے ہیں۔مسجد مدرسہ کی تزئین و آرائش اور تعمیر کے لئے بھی مشکل سے دس،بیس پچاس روپے دینے کی مشکل سے ہمت کرتے ہیں۔مگر اس کے برعکس اگر کہیں کسی میلے،عرس پر قوال،نقال یاکْھسرے اپنا جلوہ دیکھا رہے ہوں تو ہم سے رہا نہیں جاتا۔نوٹ جیب سے ایسے اچھلتے ہیں جیسے تھوڑے پانی میں مچھلی اچھلتی کودتی تڑپتی ہے۔بابا نِکے سائیں کے میلے پر قوال صاحب نے دھیرے دھیرے چال پکڑی تالی،ہارمونیم،طبلے کی مِلی جْلی مدھر آواز نے ایسی چال پکڑی کہ طبلے پر طبلہ نواز کی  انگلیاں کسی رقاصہ کے رقص کی طرح اپنا فنی جوہر دکھانے لگیں۔دیکھتے ہی دیکھتے قوال اور ہمنواوں نے راگ الاپنا شروع کیا،کلام کے پہلے شعر ہی کو کئی بار دہرایا،گھمایا اور سنایا گیا۔سامعین سازوں کی مدھر آواز میں مسحور و محصور ہوگئے۔جب قوالی نے جوش پکڑا تو سامعین کے ہوش کھو گئے۔پھر نہ جانے کیا ہوا شکاری کے فائر پر گھونسلوں سے نکل بھاگتے اڑتے پرندوں کی طرح جیبوں سے نوٹ گویا خود اْڑ اْڑ کر باہر آنے لگے۔دیکھتے ہی دیکھتے بچھی ہوئی دری خزاں میں فرشِ گلشن پر گرے ہوئے پتوں کی طرح نوٹوں سے بھر گئی۔گویا جل تھل ایک ہوگیا۔مسجد میں خطیب صاحب قرآنی آیات اور احادیث کا سہارا لے کر،میاں محمد بخش کے پْرسوز اشعار سنا سنا کر تھک جاتے ہیں۔مشکل سے بستی بھر سے دو ہزار روپے اکٹھے نہیں ہوتے ہیں۔میں سوچ رہا تھا ہم پر کسی آئیت نے اثر کیا نہ حدیث نے،طبلے کا کمال دیکھو کہ ہماری جیبوں سے نکلنے والے روپے قوالوں یا گانے والوں سے پیسے سنبھالے نہیں جاتے۔نوٹوں والے بیگ کی زِپ بند نہیں ہورہی ہوتی ٹوٹنے کو آجاتی ہے۔آخر کار ہارمونیم والا بیگ خالی کرکے اس میں نوٹوں کو دھنسا کر بند کیا جاتا ہے۔ طبلے کے زور پر بلکہ موسیقی کی تان پر گویا پسٹل تان کر جیبیں خالی کروا کر یہ لوگ ٹویوٹا  میں بیٹھ کر ہوا ہوجاتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سارا کمال طبلے کا ہے۔طبلہ ہی ہے جو بڑے بڑے ہوش والوں کو مدہوش اور بے خود کردیتا ہے۔طبلہ ایسے ہی نہیں بجتا طبلہ بھی طلب رکھتا ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب  کہا ہے کہ۔۔
*رج کھان دیاں ساریاں مستیاں نیں*
*آٹا لگے تے طبلے پٹاخدے نیں*
ہم سب طبلے پر لگے ہوئے ہیں۔طبلہ نواز چاہے نواز شریف ہو،زرداری،عمران یا کوئی اور جب ہماری سیاسی حِس کو لچھیدار تقریروں،نعروں اور وعدوں کی تسکین میسر ہوتی ہے تو وہ تسکین بھی طبلے کا کام کرتی ہے۔ہم بے خود اور مست ہوکر سب کچھ لٹا دیتے ہیں،بعد میں یہ طبلہ نواز چاہے قوالوں کی طرح ویگن میں بیٹھ کر نکل جائیں۔ساری قوالی کا یہی نچوڑ ہے کہ"سارا کمال طبلے کا ہے"۔دراصل ہمارے ملک کے سیاسیوں کو عوام دوست اور بندہ نواز ہونا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے یہ سارے"طبلہ نواز"بن گئے ہیں۔جو طبلہ کی مدھر تھاپ اور آواز پر ہم عوام کو بانسری پر سانپ کی طرح"کِیل"لیتے ہیں۔بلکہ مداری کی طرح ہمارے پاوں میں کِیل ٹھونک دیتے ہیں،مجال نہیں کہ ہم اپنے پاوں کی مٹی بھی چھوڑ جائیں۔گھنٹوں بھر گھٹنوں کے بل بیٹھے،کھمبے کی طرح اکڑے کھڑیان سیاسیوں کی تقریروں کو سنتے ہیں۔مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا۔یہ لوگ طبلے کی آواز اور ونجلی کی تان کو ہم پر اسلحہ کی طرح تان کر ہم سے ووٹ کا حق ایسے چھین لیتے ہیں کہ ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا،گویا قوالوں اور پتلی کمر والے"چِیسے" کْھسروں کی طرح نوٹوں کی جگہ  ووٹوں سے ہماری جیبیں خالی کروا لیتے ہیں۔ہمارے ووٹوں کے بل پر اسمبلیوں تک پہنچنے والے ہمیں پہچاننے جاننے سے انکار کردیتے ہیں۔یہ کسی ایک علاقہ یا انتخابی حلقہ کے"حلقوم در رسن" کی کہانی نہیں ہے،سارا نظام ہی سیاسی قوالی،ڈانس،دھمال اور طبلے کے نظام کے تحت چل رہا ہے۔دکھ یہ ہے کہ اب مجبور عوام کو بھی اس سیاسی موسیقی کی لت لگ گئی ہے۔جس نے ہمارے پ?ر اور دستِ ہْنر کو بھی کاٹ دیاہے۔معیشت ہے کہ اس کا تذکرہ قومی المیہ اور مرثیہ بن کر رہ گیا ہے۔مگر افسوس کہ اس المیہ اور مرثیہ کی کیفیت میں بھی یہاں سیاسی طبلہ نواز طبلہ پر اپنے فن کا مظاہرہ کرکے مرثیوں،نوحوں اور آہوں کا گلا گھونٹنے میں مصروفِ عمل ہیں۔

ای پیپر دی نیشن