آصفہ بھٹو سیاسی افق کا ابھرتا ستارہ


دیدہ ور
خاور ناہید موہل
پاکستان کی قومی سیاست میں آصفہ بھٹو کی آمد کوئی غیر متوقع اور اچانک نہیں ہوئی، ایک سیاسی خاندان کی چشم و چراغ، سیاسی خانوادے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سیاسی تربیت سے مالا مال اور قیادت کے اوصاف سے بھر پور لڑکی سیاسی میدان میں اپنی والدہ محترمہ شہید بی بی بینظیر بھٹو کے نقش قدم پر کیوں نہیں چلے گی؟
قرین قیاص ہے کہ آصفہ بھٹو آنے والے وقتوں میں اپنے جدِامجد سر شاہنواز بھٹو کی عظمت رفتہ میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی طرح سیاسی بصیرت اور قیادت کی وارث ثابت ہوگی۔ آصفہ بھٹو کی شخصیت میں بینظیر بھٹو کے ساتھ ساتھ اپنے والد آصف علی زرداری کی سوچ ، فہم و فراست اپنے نانا شہید ذوالفقارعلی بھٹو کی عظیم قائد انہ صلاحیت اور اپنے بڑے بھائی بلاول بھٹو زرداری کی معاملہ فہمی اور تدبر کی جھلک نظر آتی ہے۔
آصفہ بھٹو کی پیدائش ان کی نانی نصرت بھٹو کے لیے خوشی کا بہت بڑا پیغام تھا۔ کیونکہ 1990ء میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے غیر آئینی خاتمے کے بعد بیگم نصرت بھٹو کے لیے 3فروری 1993ء کو سب سے بڑی خوشی کی خبر آصفہ بھٹو کی پیدائش کی صورت میں سامنے آئی جو لندن کے پورٹ لینڈ ہسپتال میں پیداہوئیں، بیگم نصرت بھٹو کی ہدایت پر ڈاکٹر نصیر اے شیخ نے وسطی لندن کے ہسپتال میں محترمہ بینظیر بھٹؤ کے ہسپتال میں داخلے کے تمام انتظامات کیے تھے۔ آصفہ بھٹو زرداری کی پیدائش بیگم نصرت بھٹو کے لیے رنج و عالم کے تین برسوں کے بعد ایک بہت بڑی خوشخبری تھی۔ یوں آصفہ بھٹو کو بیگم نصرت بھٹو کی ذہانت اور اعلیٰ وصف بھی ورثے میں ملے جو آنے والے وقت میں آصفہ بھٹؤ کی سیاسی بصیرت کی صورت میں آشکار ہوں گے۔ آصفہ بھٹؤ کی بڑی ہمشیرہ بختاور بھٹو 25 جنوری 1990ء کو پیدا ہوئیں تھیں جب کے بلاول بھٹو زرداری آصفہ بھٹو سے 5 برس بڑے ہیں۔ یہاں یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے وزارتِ عظمی کی بھاری بھرکم ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار اور اپنے بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ رکھنے کا بھی عملی مظاہرہ کیا اور اپنی قوم کو صحت مند خاندان کی تشکیل کا مثبت پیغام پہنچایا۔ محترمہ شہید کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے پاکستان میں بچوں کو پولیو جیسے موذی مرض سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی قومی مہم کا افتتاح اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلا کرکیا،اس وقت آصفہ بھٹو کی عمر تقریباً9 ماہ تھی۔
بینظیر بھٹو نے وزیراعظم کے منصب پر فائز رہنے کے باوجود مملکت اور ماں کے رشتے کی ذمہ داریوں کو با احسن و خوبی نبھا کر دکھایا جس کو دنیا بھر کی خواتین نے سراہا۔مضبوطی کا پیغام دنیا بھر کو دیا۔ جسے دنیا میں ہر ملک کی عورتوں نے بہت سراہا۔ 
آصفہ بھٹو کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 207 سے بلامقابلہ منتخب ہو کر قومی اسمبلی کے ایوان میں پہنچی ہیں جہاں وہ اپنے بڑے بھائی اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے زیر سایہ اپنی سیاسی دانش اور بصیرت میں خوب نکھاریں گی۔ محترمہ آصفہ بھٹو کو صدر پاکستان آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی کی رکنیت کا اہل بناکر انہیں خاتونِ اوّل کا درجہ دینے کا جب اعلان کیا تو بہت سے حلقوں کی جانب سے بلا سوچے سمجھے غیر ضروری تنقید شروع کردی گئی۔
میں یہاں پر واضع کرنا چاہوں گی کہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں خاتونِ اوّل کا عہدہ سربراہان مملکت اپنی اہلیہ کے علاؤہ اپنی بیٹیوں یا بہو کو تفویض کر چکے ہیں۔ ایساان ملکوں میں ہوا ہے جہاں سربراہ مملکت کی اہلیہ بقید حیات نہ ہوں یا ان کی اہلیہ پبلک لائف سے خود کو الگ رکھتی ہوں۔ جیسے کے صدر جنرل ایوب خان نے خاتونِ اوّل کا اعزاز اپنی بیٹی نسیم اورنگزیب کو دے رکھا تھا۔ جبکہ وہ سوات کے ولی عہد شہزاد گل اورنگزیب کی اہلیہ تھیں۔ اسی لیے محترمہ آصفہ بھٹو کو خاتوں اوّل کا اعزاز دینا کوئی اچھنبے یا حیرت کی بات نہیں ،یہ امور سلطنت و مملکت کے لیے ایک پروٹوکول کا عہدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سے حلقے محترمہ آصفہ بھٹو کی میدان سیاست میں آمد کو موروثی سیاست کا تسلسل قرار دے رہے ہیں۔
ان کے لیے یہ کہنا کافی ہو گا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور خاندانوں کے افراد اپنی ذاتی صلاحیتوں اور وڑن کے بل بوتے پر آگے آئے اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ 31 سالہ آصفہ بھٹو 2022ء سے باقاعدہ طور پر اپنے والد آصف علی زرداری اور بھائی بلاول بھٹو زرداری کے زیر سایہ سیاسی اجتماعات میں اپنے جوہر دکھا رہی ہیں۔ جہاں سے انہیں تقریر کرنے اور اجتماعات میں شریک لوگوں کی نفسیات کو سمجھنے اور پرکھنے کا شعور حاصل ہوا، اور اجتماعات سے خطاب کرنے کا طریقہ اور سلیقہ نکھرنے لگا۔ 
محترمہ آصفہ بھٹؤ بھی اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی طرح آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے سیاسیات اور سوشیالوجی میں آکسفورڈ برونکس یونیورسٹی سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔ جبکہ 1826ء سے قائم یونیورسٹی کالج لندن سے گلوبل ہیلتھ اور ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی ہے۔ محترمہ آصفہ بھٹو کی تعلیمی قابلیت سے یہ قوم اس وقت مستفید ہوگی جب انکو امور مملکت میں اہم ذمہ داریاں دی جائیں گی۔ تو یقینی طور پر وہ اپنی والدہ شہید بی بی بینظیر بھٹو کی صلاحیتوں کی عکاسی کرینگی۔

ای پیپر دی نیشن