وطن عزیز میں حالیہ انتخابات کے بعد معرض وجود میں آئی کولیشن حکومت کی کارکردگی‘ دیہاڑی دار غریب کی بڑھتی غربت پر دی گئی دہائیاں‘ دولت مند اشرافیہ کی شاہ خرچیاں اور سفید پوش طبقے کے بڑھتے احساس محرومی میں چھپی سفید پوشی کا قریب سے جائزہ لینے کیلئے اگلے روز انتہائی مختصر وقت کیلئے پاکستان پہنچا۔ اپنے وطن کو چونکہ ’’ماں‘‘ کا درجہ دے چکا ہوں‘ اس لئے ’’ماں‘‘ کو بوسہ دینے اکثر و بیشتر مختصر مدت کیلئے یہاں آتا ہوں اور پھر جن دوستوں اور عزیزوں سے باوجود کوشش ملاقات نہیں کر پاتا‘ انہیں ناراض اور جن سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ انہیں خوش کرنے کے بعد اپنے دوسرے وطن انگلستان لوٹ آتا ہوں۔
سکول اور کالج کے بیشتر ’’یاروں‘‘ کا یہ شدید شکوہ کہ سالہا سال سے میں ان سے ملاقات نہیں کر سکا‘ بلاشبہ اس لئے بھی درست ہے کہ ایک ’’مخصوص مدت‘‘ سے زیادہ وطن عزیز میں قیام کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ دوستوں کو آگہی نہیں دے پاتا حالانکہ دل میرا بھی یہی چاہتا ہے کہ اپنے ان سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سے وابستہ دوستوں سے گزری ان حسین یادوں اور ناقابل فراموش شرارتی لمحات کو ازسرنو تازہ کروں جو میرے سکول سی ٹی آئی کنڈرگارٹن سے وابستہ ہیں۔ دو برس قبل اپنی اسی بین الاقوامی شہرت یافتہ مسیحی درس گاہ کرسچن ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا 45 برس بعد سکول کے عزت مآب پرنسپل مسٹر فاران گل کی خصوصی دعوت پر اپنے لائق فائق دوستوں ناصر اور سولینس کے ہمراہ دورہ کیا۔ میری خصوصی درخواست پر جناب پرنسپل نے 8ویں جماعت کا وہ دروازہ بھی کھلوایا جہاں ہماری شرارتوں اور بالخصوص اپنے یونیفارم کی شرٹ پتلون سے باہر رکھنے‘ انگریزی کے درست ہجے نہ لکھنے اور ہوم ورک مکمل نہ کرنے پر آنجہانی استاد مسٹر یعقوب ایک سخت چھڑی سے خوب خاطر مدارت کیا کرتے تھے۔ اپنے کلاس روم‘ لائبریری‘ بورڈنگ ہائوسز اور دیگر کلاس رومز کی انتہائی بوسیدہ اور ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر دکھ ہوا۔ تاہم ملک کے نامور مسیحی شاعر زبور کے خالق اور میرے اردو کے انتہائی شفیق استاد آنجہانی کے۔آر ضیاء جن کی سرپرستی میں میں نے اپنے سکول میگزین میں لکھنا اور پرچے کی ترتیب و تدوین سیکھی‘ بہت زیادہ یاد آئے۔ خواہش تھی کہ جناب پرنسپل گل کے توسط سے اپنی اس درس گاہ سے فارغ التحصیل ان دوستوں سے بھی رابطہ کی کوئی صورت نکل آئے مگر! اس میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ لائق دوستوں میں نصیر چودھری اب خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں جبکہ رضا نے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی ہے۔ اس مرتبہ سوچا یواے ای سے اپنے پاک وطن کی فضائی مسافت زیادہ نہیں اپنی ’’ماں‘‘ کی کیوں نہ قدم بوسی کرلی جائے۔ چنانچہ اس خواہش کی تکمیل کیلئے 25 برس بعد اپنی قومی اور باکمال لوگوں کی لاجواب سروس کا انتخاب کیا تاکہ حب الوطنی کے عمل کو تقویت ملے۔ پی آئی اے میں سفر کرنے کی ایک اور بڑی وجہ ائرلائن کے فروخت ہونے سے قبل اپنے قومی پرچم کو الوداعی سلیوٹ دینے کا اعزاز حاصل کرنا بھی تھی مگر افسوس! قومی ایئرلائن پر سفر کرنے کا میرا یہ خوشگوار فیصلہ درست ثابت نہ ہوا۔
ہم ہنس دیئے ہم چپ رہے
منظور تھا پردہ تیرا
ابوظہبی کے نئے تعمیر شدہ ٹرمینل اے کے گیٹ نمبر 25بی سے سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کیلئے اڑان بھرنے والی پی کے۔ 178 ‘ جسے انتہائی تجربہ کار ہواباز کیپٹن طلحہ موسم کی شدید خرابی کے باوجود انتہائی مہارت سے اڑا رہے تھے‘ کی نشستوں کے حفاظتی بند باندھنے کی روشنیاں جلائے رکھنے پر ڈیڑھ گھنٹہ تک مسافروں کو اپنی نشستوں پر بیٹھے رہنے کی ہدایات جاری کرتے رہے مگر زہے نصیب مجھے ٹائلٹ کی جانب روانہ ہونا تھا‘ طیارے کی اندرونی روشنیاں بند تھیں‘ چنانچہ طیارے کی Troublance جونہی تھوڑی کم ہوئی‘ میں نے اپنا حفاظتی بند کھولا اور ٹائلٹ کی جانب روانہ ہوا۔ مجھے یہ ہرگز معلوم نہ تھا کہ ٹائلٹ کے قریب والی سیٹوں پر دو معزز فضائی میزبان خواتین آرام فرما رہی ہیں۔ میرے قدموں کی آہٹ پاتے ہی ایک معزز فضائی میزبان جسے آپ ایئرسٹیورٹ کہہ لیں‘ ایئرہوسٹس کہہ لیں‘ یا پھر مسافروں کی خدمت پر مامور ’’چودہ جماعتیں پاس‘‘ معزز خاتون فوراً بولیں‘ تم کدھر جا رہے ہو‘ تمہیں معلوم نہیں باہر موسم سخت خراب اور ہوا کا دبائو کم ہو چکا ہے۔ اگر تم گر گئے تو ذمہ دار کون ہوگا؟ جائو اور اپنی سیٹ پر بیٹھو۔ میرے لئے اپنی سفری زندگی کا انتہائی افسوسناک اور کسی فضائی خاتون میزبان کی جانب سے کبھی مسافر کیلئے غیرتعلیم یافتہ انداز تخاطب حیران کن تھا۔ میں نے اپنی غریب الوطنی کا واسطہ دیتے ہوئے اس معزز خاتون کو بتایا کہ ڈیڑھ گھنٹے تک اپنی سیٹ پر مزید بیٹھنا میرے لئے ممکن نہیں۔ ساتھ بیٹھی دوسری فضائی خاتون میزبان کو شاید مجھ پر ترس آگیا ورنہ یواے ای سے آنیوالے مسافروں پر قومی ایئرلائن میں ’’ترس‘‘ کھانے کا سرے سے تصور ہی موجود نہیں۔ اچھا فوری جائو… اور جلد واپس آئو… طیارہ بدستور ہوا کا دبائو کم ہونے کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ جی بہتر! شکریہ۔ ٹائلٹ استعمال کے فوری بعد گرم اور ٹھنڈے پانی کیلئے Sink کی ٹوٹی کھولنے کی کوشش کی تو ٹوٹی ناکارہ اور پانی مکمل طور پر بند… تاہم کسی ذہین فضائی میزبان نے سنک کے ساتھ ہی 5 ملی لیٹر بوتل رکھ دی تھی تاکہ صابن کے بغیر ہی مسافر ’’کام چلالے‘‘ میں نے کم سے کم پانی کے استعمال سے ہاتھ تو صاف کئے‘ کلمہ پڑھا‘ اور فضائی میزبانوں کے خوف سے انہیں پانی بند ہونے کی اطلاع دیئے بغیر چپکے سے آکر سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کیپٹن طلحہ تک جب اپنا رونا دھونا بیان کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے معذرت کی تو مگر میں ان کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا تھا کہ جہاز ابھی تک ہچکولے کھا رہا تھا۔ پھر کیا ہوا‘ پھر کبھی سہی! دو گھنٹے اور 45 منٹ کے بعد الحمدللہ پی آئی اے کی یہ 320-200 ایئربس سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ہوائی اڈے پر اتر گئی جہاں میرے مربی و محسن Sial کے بانی چیئرمین اور ایوان صنعت و تجارت کے سابق صدر میاں محمد ریاض نے بھرپور استقبال کیا اور حسب سابق مجھے اپنی میزبانی کے حصار میں لے لیا۔ (جاری)