گزشتہ روز وزیراعظم نے ایف بی آر‘ کسٹم اور ان لینڈ ریونیو کے 22اعلٰی افسران کو عہدوں سے ہٹادیا اور 2019ء میں سگریٹ و چینی مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں نصب کئے گئے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو فراڈ قرار دیکر اس کی تحقیقات کرانے کا حکم دیا۔ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے فراڈ میں ملوث افراد کو عہدوں سے ہٹانے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاقی کابینہ نے پی آئی اے کی نجکاری میں شفافیت اور بجلی چوروں کے خلاف موثر کارروائیوں کے لئے حکمت عملی مرتب کی۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جتنا بھی ٹیکس وصول ہو‘ اسے قومی خزانے میں آنا چاہئے اور ٹیکس آمدن میں کمی کی وجہ بننے والے اقدامات و افراد کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سمگلنگ کے خاتمے کے لئے اقدامات پر بھی غور کیا گیا۔
اسی طرح گرین پاکستان انیشیٹو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان نعمتوں سے مالامال ملک ہے اور ترقی کے لئے ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جدید زرعی طریقوں کو عام کرنے سے پاکستان میں خوشحالی آ ئے گی اور زراعت کی ترقی سے ہی ملک مضبوط ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم محنتی ہے اور مواقع کی فراہمی سے ہم ہر طرح کی مشکلات سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس طرح آرمی چیف ذاتی طور پر معاشی مشکلات سے نکلنے کے لئے برسرپیکار ہیں اور حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں تو توقع کی جاسکتی ہے پاکستان جلد مزید معاشی بہتری کی جانب جائے گا اور زراعت میں ترقی ہوگی۔ زراعت میں جدید ترین ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لئے چین پاکستان کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔پاکستان کو اپنے آبی وسائل کو بھرپور استعمال میں لانے کے لئے قومی اتفاق رائے سے چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کی جانب تیز ترین پیشرفت کرنا ہوگی جس سے زراعت کی یقینی ترقی ممکن ہوگی۔
ملکی ٹیکس آمدن میں اضافے اور ٹیکس وصولی کے ادارے میں موثر اقدامات ضروری ہیں کیونکہ جب تک قومی خزانے میں ٹیکس آمدن میں اضافہ نہیں ہوگا اس وقت تک ملک قرضوں کی دلدل سے نہیں نکل سکتا۔ ایف بی آر کے کرپٹ افسران کے خلاف مکمل تحقیقات کے بعد موثر کارروائی ہونی چاہئے تاکہ دوسرے ملازمین کے لئے یہ لوگ نشان عبرت بن سکیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس وصولی کے متعلق پالیسی سازی درست ہونی چاہئے۔ پاکستان میں ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہونے کے باعث لوگ ٹیکس چوری کی جانب مائل ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے سمگلنگ کو فروغ مل رہا ہے۔ اگر ٹیکس کی شرح بہت کم اور ادائیگی آسان ہو تو کاروباری افراد بخوشی ٹیکس ادائیگی پر رضامند ہوں گے اور ٹیکس ادائیگی میں آسانیاں پیدا کرکے سمگلنگ کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں تو ٹیکس دینے والوں کو ٹیکس محکمہ زیادہ تنگ کرتا ہے اور جو لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں وہ سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں تو بدقسمتی سے ٹیکس دینا جرم بنا ہوا ہے۔ ٹیکس دینے والے افراد کو آئے روز نوٹس کرکے پریشان کیا جاتا ہے۔ یہ بات تو ایف بی آر کے کئی سابق چئیرمین بھی کہہ چکے ہیں کہ قومی خزانے میں آنے والی رقم کے مساوی رقم ٹیکس محکمے کے افسران کی ذاتی جیب میں جاتی ہے۔ اب وزیراعظم کی جانب سے ٹیکس محکمے میں کڑے احتساب کے عزم کے اظہار سے امید کی جاسکتی ہے کہ شفاف احتساب کرکے ٹیکس محکمے میں کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا۔ 1975ئمیں مجھ سے ٹرن اوور کے مساوی 75لاکھ روپے ٹیکس وصول کیا گیا جبکہ اصل ٹیکس 68,000وپے بنتا تھا۔ میں نے E.T.O.‘ اسسٹنٹ کمشنر اور کمشنر حیدرآباد کو اپیل کی جسے مسترد کردیا گیا تھا اور مجھ سے اس وقت 25لاکھ روپے رشوت مانگی گئی جو میں نے نہیں دی اور معاملہ ٹیکس ٹریبونل میں لے آیا۔ ٹریبونل کے جج نے پہلی پیشی پر 65لاکھ ٹیکس ختم کردیا اور اگلی پیشی پر دوسرے جج نے سرکاری وکیل کوکہا کہ اتنا ناجائز ٹیکس لگنے کے بعد میں حیران ہوں کہ یہ شخص ابھی تک زندہ ہے؟ اتنی زیادتی کرنے والے افسران اگر آج میرے سامنے ہوتے تو میں انہیں جیل بھیجوا دیتا اور انہوں نے سارا ٹیکس ختم کرنے کا حکم جاری کیا۔
ٹیکس ادائیگی کو اس قدر آسان ہونا چاہئے کہ ایک عام کم پڑھا لکھا شخص بھی اردو میں فارم بھر کر کسی بھی بینک میں اپنا ٹیکس جمع کراسکے اور اس عمل میں اسے کسی وکیل یا ٹیکس محکمے کے افسر کی مدد کی کوئی ضرورت نہ ہو۔ ٹیکس کی شرح اس قدر مناسب ہو کہ ہر شہری بخوشی ادائیگی کرسکے۔ اس طرح ٹیکس آمدنی میں انقلابی اضافہ ہوگا تو دوسری جانب وفاقی‘ صوبائی‘ شہری‘ ضلعی‘ ٹاؤن اور یونین کونسل سطح کے الگ الگ درجنوں ٹیکس اور آئے روز کسی نہ کسی محکمے و اتھارٹی کے افراد کا کاروباری افراد کے دروازے پر آجانا ملک میں کاروبارکرنے والے افراد کی حوصلہ شکنی کا سبب ہے اور کئی محکموں کے افراد کے رویئے اور طرز عمل اس قدر غیر اخلاقی ہوتا ہے کہ کاروباری افراد یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ شاید ہم نے اس ملک میں ٹیکس نیٹ میں آکر اور کاروبار کرکے گناہ عظیم کرلیا ہے۔ بھارت میں ٹیکس کے نظام سے ہمیں سیکھنا ہوگا اور آسانیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ یہاں تو لوگ ٹیکس محکمے کے ڈر سے سرمایہ بیرون ملک لے جاتے ہیں یا چھپاکر بیٹھے رہتے ہیں۔ جب کاروبار نہیں کیا جائے گا تو ٹیکس کیسے ملے گا اور بے روزگاری میں کیسے کمی آسکتی ہے؟
پاکستان میں جب تک سرمایہ کاری کے لئے دوست ماحول نہیں بنادیا جاتا اس وقت تک ٹیکس آمدن میں انقلابی اضافہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں کوئی بھی سرمایہ کاری کرنا چاہئے تو اس کے لئے ایک ہی آن لائن فارم جمع کراکر تمام منظوری اسی کے ذریعے آن لائن طریقے سے ایک ہفتے میں ہی ہونی چاہیئے جس طرح سنگاپور نیایک فارم کے ذریعیسرمایہ کاری کا طریقہ رائج کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو موثر احکامات صادر کرنا ہوں گے۔