جمعرات، 23شوال المکرم   1445ھ،2 مئی  2024ء


 حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے رابطے کا فیصلہ
’’سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا ‘‘اس فلسفے مقولے ضابطے قاعدے یا اصول پر اب تو آہنی مہر ثبت ہو گئی۔ سیاسی ضروریات بدلتی رہتی ہیں، سیاسی دشمن اور دوست بدلتے رہتے ہیں، سیاسی موقف میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور سیاسی اصول بھی کبھی ایسے بدل جاتے ہیں جیسے؛
پیتے پیتے کبھی کبھی یوں جام بدل جاتے ہیں۔
عمران خان کی کوئی بھی جلسے میں ریگولر میڈیا یا سوشل میڈیا پر تقریر مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی. مولانا فضل الرحمن بھی عمران خان کوجب تک یہودی ایجنٹ اور یو ٹرن خان نہ کہہ لیں اس وقت تک ان کی بات ادھوری رہ جاتی تھی۔عمران خان کی حکومت کے دوران مولانا نے دو لانگ مارچ کئے۔تحریک عدم اعتماد کو آرگنائز کیا اور عمران خان کو گھر بھجوا کر دم لیا۔دونوں ایک دوسرے کے لیے پوری طرح زمین گرم کرتے رہے۔اب دونوں کو کسی اور نے گرم زمین پر لا کھڑا کیا ہے تو ایک دوسرے کو ملنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں کر کر لمبے ہاتھ۔اب دونوں کا موقف ایک ہے مقصد ایک ہے، نو زائیدہ حکومت کا خاتمہ۔ تو ایک دوسرے پر پیار آنے لگا ہے۔اسد قیصر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہماری بات چیت جاری ہے۔مولانا بھی تحریک انصاف کے لیے نرم گوشے کا اظہار کر چکے ہیں۔ جب باقاعدہ مذاکرات کے لیے آمد و رفت اور نقل و حرکت ہوگی تو یہ نغمہ کئی کانوں میں رس گھول سکتا ہے۔
ماہی آوے گا میں پْھلاں نال دھرتی سجاواں گی
اوہنوں دل والے رنگلے پلنگ تے بٹھاواں گی
جھلاں گی پکھیاں بڑا کجھ کہن گیاں اکھیاں۔
سیاست جب بگڑنے پر آ جاتی ہے تو پھر جھلاں گی پکھیاں سے بات توڑاں گی وکھیاں تک چلی جاتی ہے. آج جو لوگ اقتدار میں ہیں گزشتہ کل تک مولانا صاحب کے مقتدی تھے- سب نے اڑنگا لگا کر عمران خان کی حکومت گرا دی تھی۔اب سابق ساتھیوں کو اڑنگا لگانے کی تیاری جاری ہے۔جن انتہاؤں پر مولانا اور خان صاحب تھے انہی پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون 1988ء سے 99ء تک ہوا کرتی تھی۔خان اور مولانا تو اب ہوئے ہیں۔ پی پی اور نون لیگ اس سے قبل فلسفہ سیاست اور مقولہ جمہوریت 
’’سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا ‘‘کی کہیں پہلے اسیر ہو چکی تھیں۔
٭٭٭٭٭
امریکی سفیر کا پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں استقبالیہ، ڈونلڈ بلوم نے ٹیم کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلی
ڈونلڈ بلوم نے پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے چوکے چھکے بھی لگائے ہوں گے۔جو تصویر جاری ہوئی ہے اس میں بال نہیں دکھائی گئی کہ وہ وائٹ بال تھی ریڈ بال تھی ٹینس بال تھی یا پکی بال تھی۔ویسینئے کھلاڑی کو ڈیڈ بال کھلائی جاتی ہے۔ ہمارے ارباب اختیار میں سے ایک کو کرکٹ کھیلنے کا بڑا شوق تھا باؤلر ان کو ایسے بال کراتے تھے جیسے گیند نہیں نرالے گئے لڈو سے باؤلنگ کرائی جا رہی ہو۔ڈونلڈ بلوم ہو سکتا ہے عرصے سے کرکٹ کھیلتے چلے آ رہے ہوں۔بہرحال کرکٹ سے ان کی دلچسپی کا یہ عالم تو نظر آیا کہ انہوں نے اپنے ملک میں پاکستان سیکرکٹ امپورٹ کر لی۔پاکستان امریکہ سے بہت کچھ امپورٹ کرتا ہے لیکن کچھ یادگار چیزیں پاکستان نے امریکہ کو ایکسپورٹ بھی کی ہیں۔ ان یادگار چیزوں میں ایک تو ٹی ٹونٹی کرکٹ ہے۔ڈونلڈ بلوم نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں جو استقبالیہ دیا وہ اسی تناظر میں تھا کہ امریکہ میں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ اگلے ماہ جون میں منعقد ہوگا۔انتظامات کے لیے پاکستانی آفیشلز اور ماہر امریکہ جا چکے ہیں۔ایک ایکسپورٹ 60 کی دہائی میں پاکستان نے امریکہ کو کالے ہر نوں کا ایک جوڑا تحفے میں دے کر کی تھی۔بعد ازاں پاکستان میں جب کالے ہرن کی نسل ختم ہو گئی تو امریکہ سے کالے ہرن کے 10بارہ جوڑے منگوائے گئے تھے آج پاکستان میں کالے ہرن کی بہتات تو نہیں ہے لیکن اس کی افزائش اطمینان طریقے سے ضرور ہو رہی ہے۔کھیلیں قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بھی بنتی ہیں۔امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے نشیب و فراز کی ایک تاریخ ہے جس طرح ٹی ٹونٹی کرکٹ پاکستان کی وساطت سے امریکہ میں چلی گئی ہے یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں فراز یعنی عروج کا باعث بن سکتی۔
٭٭٭٭٭
پرائمری سکول کا اْستاد بارات چھوڑ کر امتحان لینے سکول پہنچ گیا
شیراز رسول خاصخیلی کسی اور کی بارات کے ساتھ نہیں جا رہا تھا بلکہ اس کی اپنی بارات تھی،بارات کو انہوں نے چھوڑا عروسی لباس میں ہی پہلے سکول گئے بچوں کا امتحان لیا اس کے بعد دلہن کے گھر کی طرف اپنا گھوڑا سر پٹ دوڑا دیا۔اسے کہتے ہیں فرض منصبی کا احساس اگر خاصخیلی صاحب سکول نہ جاتے امتحان نہ لیتے تو بچوں کا کیا بنتا شاید سکول میں دوسرا ٹیچر نہیں تھا ویسے ان کے بد خواہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے شاید "بوٹی" لگوانے کے پیسے پکڑے ہوئے تھے اس فرض عین کی ادائیگی کے لیے بارات کو تھوڑا سا مؤخر کیا۔خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ مارکنگ کے لیے پیپر وہ اپنے ساتھ لے گئے اسکول میں چھوڑ دیئے، دوسرے استاد کے حوالے کر دیئے یا کلاس کے مانیٹر کو مارکنگ کے لیے کہہ دیا۔ہم خوش گمانی سے کام لیتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ خاص خیلی نے اپنا فرض ادا کیا یہ بوٹی شوٹی، چیٹنگ چودھراہٹ کے چکروں میں نہیں پڑتے۔ قانون قواعد اور ضوابط کی مکمل پابندی کرتے ہیں۔بچوں پر عدم تشدد کے حوالے سے قانون بن چکا ہے اور مقولہ یہ دہرایا جاتا ہے مار نہیں پیار اس کے باوجود بھی کچھ ناہنجار قسم کے لوگ بچوں پر تشدد کرتے ہیں۔ خبر شائع ہوئی ہے کہ ایک استاد نے سات سالہ بچے کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیو بھی وائرل ہو گئی۔یہ معلوم نہیں کہ تشدد کی یہ ویڈیو ماسٹر صاحب نے اپنے موبائل سے خود بنائی مگر سوال یہ ہے کہ وائرل کس نے کی۔اب استاد جی کو کیا سزا دی جائے وہی جو اس نے بچوں کو دی بہتر ہے کہ سزا یہی دی جائے لیکن سزا اس کی امی یا ابا جی دیں.
٭٭٭٭٭
میرے بچے میری بات نہیں سنتے عامر خان کا شکوہ
عامر خان فلم انڈسٹری کا بڑا نام ہیں۔لوگ ان کے ڈائیلاگ ان کی ایکٹنگ ان کے لباس اور ہیئر سٹائل کی نقل کیا کرتے تھے مگر ان کے بچے ان کی ایک نہیں سنتے۔اپنے ساتھ اپنے بچوں کی بے مروتی کو وہ نئی نسل کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ کبھی لگتا ہے نئی نسل کہیں درمیان میں پھنس کر رہ گئی ہے۔عامر خان نے دو شادیاں کیں لارا دتا سے ان کی پہلی شادی لو میرج تھی، ایک موقع پر لارا دتا نے اللہ دتا بن کر ان کو انہی کے بقول تھپڑ بھی رسید کر دیا تھا لیکن اس پر قطعی طور پر بے مزہ نہیں ہوئے تھے۔ ان کی علیحدگی کی وجہ کچھ اور تھی۔ 1985ء￿  میں شادی ہوئی 2002ء میں علیحدگی ہوئی جنید اور ایرا ان کے بچے ہیں۔دوسری شادی کرن راؤ سے ہوئی۔ان سے کوئی اولاد ہے یا نہیں اس بارے میں میڈیا میں کوئی خاص چرچا نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ ان کو شکوہ جنید اور ایرا سے ہی ہے۔عامر خان خود سوچیں کہ یہ اپنے والدین کی کتنی سنا کرتے تھے۔ان کے ایک سینیئراور رنگین مزاج اداکار میں بھی نہیں دیکھی دھرمندر ہیں انہوں نے کہا ہے کہ انہیں اپنے والدین کو ٹائم نہ دینے کا پچھتاوا ہے۔اگر دھرمندر کی اولاد ان کو ٹائم نہیں دیتی تو پھر ان کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ ان کے والدین ان کی طرف سے ٹائم نہ دیئیجانے پر اسی طرح سوچتے ہوں گے جیسے آج عامر خان سوچتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن