اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی دیوار بن کر برے حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اتحاد و اتفاق جو ہر قوم کی قوت کا سر چشمہ ہے اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے کے حقوق کا محافظ ہو۔ اگر ہم ایک دوسرے کے حقوق کا خلوص دل سے تحفظ نہیں کر سکتے تو بڑے سے بڑا خطیب بھی اپنی نصیحت سے قوم کو رشتہ محبت میں نہیں پرو سکتا۔ حق تلفی کی وجہ سے انتہائی قریبی رشتے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ سگے بہن بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریمﷺ کو ایک ایسی امت کی تشکیل کے لیے مبعوث فرمایا جس کے پیش نظر کلمہ حق کو بلندکرنا،انسانی معاشرہ کے افراد کو خیر اور فلاح و بہبود کی طرف دعوت دینا اور ایک ایسے نظام حیات کو نافذ کرنا جو انسان کی فلاح و بہبود کا ضامن ہو۔ ایک ایسا نظام کرنا جو تمام غیر فطری اور باطل نظاموں کو ختم کر کے ایک ایسے نظام کو رائج کرے جس کی بنیاد انسانی مساوات اور عدل و انصاف پر ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے۔( سورۃ الحجرات )
حضور نبی کریم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : اے فرزندان اسلام کان کھول کر سن لو ! تمہارے خون ، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تمہارے لیے اتنی مقدس اور محترم ہیں جس طرح اس مقدس مہینے کا یہ دن اس معظم شہر مکہ میں معزز اور حرمت والا ہے۔ پھر فرمایا : اس زندگی کے بعد تم ضرور اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک دن حضور نبی کریم ﷺ بیت اللہ کا طواف فرما رہے تھے تو آپ ﷺ نے بیت اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے کعبہ تو کتنا پاکیزہ ہے اور تیری خوشبو کتنی معطر ہے۔ اے کعبہ تو کتنی عظمت والا ہے اور تیری عزت و حرمت کتنی بلند ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مومن کے جان و مال اور آبرو کی عزت و حرمت تیری عزت و حرمت سے بھی اونچی ہے۔ ( ابن ماجہ )
جو بندہ بھی حضور نبی کریم ﷺ سے محبت کا دعوی کرتا ہے اور آپ ﷺ کے ارشادات کو سنتا ہے وہ غلطی سے بھی کسی کی بھی حق تلفی نہیں کرے گا۔