سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ ججز کے خط پر ہائیکورٹس کی بھجوائی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ تجاویز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور فاضل ججز کی فل کورٹ میٹنگ میں مرتب کر کے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھجوائی گئیں جن کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے بھجوائے گئے مراسلہ پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر چھ ججوں پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے خصوصی بنچ کے روبرو و سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا سو ہوا، اب نہیں ہو گا۔ ہم عدلیہ میں مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ لوگ شائد عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے مگر ہم عدالت کی آزادی یقینی بنائیں گے۔ عدالت پر اندر اور باہر سے حملے نہیں ہونے چاہئیں، ہم عدالت کی ماضی کی تاریخ کے ذمہ دار نہیں۔ ماضی میں ہائیکورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔ ہم نے ہائیکورٹ کے معاملہ میں مداخلت نہیں کرنی۔ فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہائیکورٹس کسی کی جانب سے دبائو پر ازخود کارروائی کر سکتی ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں اب آگے بڑھنا ہے۔ ہم کسی سیاسی قوت یا کسی مخصوص ایجنسی کے لئے ہیرپھیر نہیں کرنے دیں گے۔ ہم کسی سیاسی طاقت، حکومت یا ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے۔ ہم وکلاء یا حکومت کو بھی ایسا نہیں کرنے دیں گے، کیا ہمارے ماتحت بار کے صدور ججز سے چیمبرز میں ملاقاتیں نہیں کرتے؟۔ کیا یہ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ عدلیہ کی آزادی کے لئے بااختیار ہونا بھی ضروری ہے۔
دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ یہ پورا کیس عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے۔ عدلیہ میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ ہائیکورٹس کے پاس توہین عدالت کا اختیار تھا مگر انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ افتخار چودری کیس، بے نظیر بھٹو کیس، دھرنا کیس کی مثالیں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک کمرے میں نہ بیٹھو، اِدھر بیٹھو، کوئی سن لے گا، یہاں کوئی بات نہ کرو۔ ’’بڑا بھائی‘‘ سب دیکھ رہا ہے۔ یہ کیا کلچر ہے؟۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ شرمناک اور ناقابل قبول ہے۔
بنچ کے فاضل رکن جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ انٹیلی جنس کے ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے باور کرایا کہ انہوں نے دھرنا کیس میں لکھ دیا تھا کہ جنرل فیض حمید اس کے پیچھے تھے تاہم معاملہ بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ بیوروکریسی کو بھی فون آتے ہیں جو دبائو برداشت کرتے ہیں وہ او ایس ڈی بنا دئیے جاتے ہیں۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اگر عدلیہ نے اپنے دروازے نہ کھولے تو پھر دبائو نہیں ہو گا۔ جو دروازے کھولتے ہیں، ان کے خلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا ، حکومت نے کیا کیا؟۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں کئی سابق ججز بھی ملوث ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ سابق چیف جسٹس ہو یا موجودہ، کارروائی کریں۔ احتساب تو ہونا چاہئے، دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ پشاور ہائیکورٹ کا جواب سب سے سنجیدہ ہے جو کہتے ہیں کہ ہمیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں آتی ہیں۔ فاضل چیف نے ریمارکس دئیے کہ اگر میں مداخلت پر درست فیصلہ نہیں کر سکتا تو مجھے گھر چلے جانا چاہئے۔ اگر پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہو گی تو دوسرے ادارے کیسے مضبوط ہوں گے۔ سپریم کورٹ رولز پارلیمنٹ بناتی ہے۔ اس کیس کی مزید سماعت اب سات مئی کو ہو گی۔
بے شک ہماری عدلیہ کی ماضی کی تاریخ کوئی مثالی اور یادگار تاریخ نہیں ہے۔ جبکہ عدلیہ پر دبائو اور من مرضی کے فیصلے لینے کی ماضی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس معاملہ میں نظریہ ضرورت بھی عدلیہ کا ہی ایجاد کردہ ہے اور ایک سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اپنے انٹرویو میں بھٹو کیس میں عدلیہ کے کمپرومائز ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ججوں نے بھی اپنی نوکری بچانا ہوتی ہے۔ ہم ان سطور میں یہ عرض کرتے رہتے ہیں کہ اگر تمام ریاستی، حکومتی اور انتظامی ادارے آئین اور قانون میں وضع کردہ اپنی ذمہ داریوں اور اختیارات کے اندر رہ کر کام کرنا اپنا شعار بنا لیں تو نہ کبھی ادارہ جاتی کشیدگی اور ٹکرائو کی نوبت آئے اور نہ ہی سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کسی کو جرات ہو۔ آئین اور قانون میں ادارہ جاتی اختیارات پارلیمنٹ کے متعین کردہ ہیں اور ان میں کسی قسم کا رد و بدل مقصود ہو تو اس کا مجاز ادارہ بھی پارلیمنٹ ہی ہے جبکہ پارلیمنٹ کے ذریعے تشکیل پائے آئین پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے اور اس آزادی کے تحفظ کے لئے بھی توہین عدالت اور دوسرے قوانین کے تحت عدلیہ کو بااختیار بنایا گیا ہے۔ اس تناظر میں اگر عدلیہ کی آزادی پر کوئی قدغن نہ لگنے دینے کی روایت عدلیہ ہی کی جانب سے ماضی میں یقینی بنا دی گئی ہوتی تو آج اس معاملہ میں عدلیہ اور دوسرے فورمز پر بحث مباحثے اور ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی نوبت ہی نہ آتی۔
بدقسمتی سے یہاں ماورائے آئین اقدام کے تحت منتخب جمہوری نظام کی بساط الٹانے کی 1958ء کے مارشل لاء کے ذریعے قائم ہونے والی روایت کے آگے مجاز فورم عدلیہ کے ذریعے بند نہ باندھا جا سکا اور نظریہ ضرورت ایجاد کر کے اس اقدام کو جائز اور آئینی تحفظ فراہم کر دیا گیا اس لیئے ماورائے آئین اقدام کی یہ روائت پھلتی پھولتی رہی اور معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا تصور اجاگر ہوتا رہا۔ نتیجتاً انصاف کا جھکائو بھی اس تصور کے ساتھ ہی وابستہ ہو گیا۔ 1993ء میں میاں نواز شریف کے کیس میں سپریم کورٹ نے صوابدیدی آئینی اختیار کے غلط استعمال کے تحت توڑی گئی اسمبلی اور حکومت بحال کی مگر بحال ہونے والے وزیراعظم ایک ہی ماہ بعد خود ہی اسمبلی دوبارہ توڑنے پر مجبور ہو گئے جو ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے تصور کے آگے سرنگوں ہونے کی ہی ایک مثال تھی۔ اسی عرصہ کے دوران سپریم کورٹ نے ائرمارشل اصغر خاں کے کیس میں ایک سیکورٹی ایجنسی کی جانب سے سیاسی امور میں مداخلت کا نوٹس لیا اور اس ایجنسی کے سربراہ کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو تحریری یقین دہانی کرائی گئی کہ سیاسی امور میں مداخلت سے متعلق اس کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ اس کے باوجود سیاست، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے امور میں مداخلت کا سلسلہ نہ رک سکا اور بدقسمتی سے انتخابی نتائج پر بھی اس مداخلت کے اثرات مرتب ہونے لگے جبکہ ماضی قریب کے ایک سیاسی جماعت کے دور میں پارٹی قیادت کے ساتھ اندھی عقیدت و نفرت کے جذبات عدلیہ اور دوسرے ریاستی اداروں میں بھی در آئے جس سے سسٹم کی بقاء و استحکام اور عدلیہ کی آزادی کو ان اداروں کے اندر سے بھی جھٹکے لگنا شروع ہو گئے۔
اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدلیہ نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ان غلطیوں کے ازالہ کے لئے خود احتسابی کا عمل شروع کیا ہے جس کی بنیاد پر عدلیہ کی آزادی میں کسی مداخلت کو برداشت نہ کرنے کا عزم بھی سامنے آ رہا ہے تو اس سے آئین و قانون اور انصاف کی عملداری کے ساتھ سسٹم کی بقاء و استحکام کی ضمانت بھی ملتی نظر آ رہی ہے اور ادارہ جاتی فرائض و اختیارات متعینہ آئینی اور قانونی حدود میں رہ کر سرانجام دینے کی فضا بھی سسٹم کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا بن رہی ہے۔ اس معاملہ میں ججز کے خطوط پر عدالت عظمیٰ میں ازخود نوٹس کیس کے یقینا دورس اثرات مرتب ہوں گے جو سسٹم کو ٹریک پر لانے کے لئے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا ہی کریڈٹ ہے۔ دوسرے ریاستی ادارے بھی اس کی تقلید کریں تو آئندہ کسی کو سیاسی، عدالتی امور میں مداخلت کی جرات نہ ہو۔