سیاست دانوں سے گرینڈ ڈائیلاگ کے امکانات

 سیاسی جماعتوں کے اندر مختلف رہنماؤں کے علیحدہ نظریات سے بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کے عمل کا شکار ہیں ایسا بظاہر نظر آتا ہے مگر حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں۔مسلم لیگ ن کی مثال لے لیجئے  اس میں شاہد خاقان عباسی ایک علیحدہ سوچ رکھتے ہیں بعض رفعہ خواجہ سعد رفیق بھی تلخ باتیں کرتے نظر آتے ہیں مگر ایسا ہے نہیں۔ ایک حالیہ بیان میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں واپسی اب ناممکن ہے البتہ اگر مجھے نواز شریف کی ٹیلی فون کال آجائے تو ان سے ملنے چلا جاؤں گا۔ جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف نواز شریف کی کال کے منتظر ہیں۔حالانکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ آئین میں نہیں ہے اور تینوں بڑی جماعتیں گزشتہ 3 سال میں ناکام ہوچکی ہیں۔مگر اس کے باوجود وہ نواز شریف سے فون کال کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ایک طرف تو یہ بات کہی جارہی ہے کہ آئین میں ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ نہیں ہے تو دوسری طرف کچھ حلقوں میں یہ باتیں ہورہی ہیں کہ اسحاق ڈار کو اس عہدے پر لگانے کا مقصد نواز شریف کو مضبوط کرنا ہے تاکہ اسحاق ڈار کے ذریعے کچھ اہداف حاصل کئے جاسکیں۔یہ بات تو حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی ملک واپسی کے بعد سے اس جماعت کی مضبوطی تو بڑھی ہے اسی وجہ سے مسلم لیگ ن پنجاب کے تنظیمی اجلاس میں میاں نوازشریف کو پارٹی صدر بنانے کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔اس کے بعد اسحاق ڈار کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنادیا گیا۔نواز شریف کو پارٹی صدر کی قرارداد میں کہا گیا تھا مسلم لیگ ن کے عہدیداروں اور کارکنوں نے قائد میاں نواز شریف کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ قرار داد کے مطابق میاں نواز شریف کو 2017 میں ایک سازش کے تحت نااہل کیا گیا اور نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ ن کی صدارت سے جبری طور پر محروم کیا گیا۔قرارداد کے متن میں یہ بھی بتایا گیا کہ آج جبکہ سازشی آرڈرز اور جعلی سزائیں اپنے انجام کو پہنچ چکی ہیں، اللہ تعالیٰ نے قائد میاں نواز شریف کو سرخرو کر دیا ہے، مسلم لیگ ن اپنے قائد میاں نواز شریف سے استدعا کرتی ہے کہ وہ پارٹی کی قیادت سنبھالیں تاکہ  پارٹی ان کی ولولہ انگیز قیادت میں عوامی مقبولیت کی نئی جہتیں طے کر سکے۔ اس قراداد کے ذریعے پیغام تو دیا گیا ہے کہ نواز شریف کے علاوہ پارٹی میں کوئی سوچ قبول نہیں ہوگی۔مسلم لیگی حلقوں میں یہ باتیں ہورہی ہیں کہ نواز شریف اب عملی طور پر میدان میں اترنے والے ہیں وہ کہاں سے شروعات کرتے ہیں یہ دیکھنا ہے کیونکہ اس قسم کی باتیں تو الیکشن سے قبل ہی کی جاتی ہیں ملک میں ایسا ماحول تو ہے نہیں ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ وہ اسلام آباد جا کر بیٹھیں اور ملک گیر سیاست  شروع کریں یا سیاست دانوں سے گرینڈ ڈائیلاگ کی مہم شروع کریں یا سبھی جماعتوں کے رہنماؤں کو ایک پیج پر لانے کی کوشش کریں۔اگر یہ کوشش کی جاتی ہے ہے تو ملک میں ہم آہنگی کے ماحول کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ادھر پنجاب میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز پنجاب کو ترقی کے سفر پر ڈالنے کے مشن کو تیز کئے ہوئے ہیں وہ زیادہ وقت میٹنگز اور فیلڈ میں گزار رہی ہیں اور پنجاب بھر کے دورے بھی شروع کر رکھے ہیں۔پنجاب کی تاریخ میں کینسر ہسپتال بھی بنانے جارہی ہیں اس کے ساتھ فیلڈ ہسپتال بھی قائم کیا جارہا ہے جو یقیناً بہت ہی خوش آیند اقدام ہوگا۔وزیراعلیٰ نے فیلڈ ہسپتال پراجیکٹ کا افتتاح بھی کردیاہے۔اس سلسلے میں بتایا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں 32سے زائد چھوٹے بڑے فیلڈ ہسپتال فنکشنل کیے گئے ہیں۔اس پہلے مرحلے میں 21لارج فیلڈ ہسپتال صوبے کے مختلف اضلاع میں علاج معالجے کی معیاری سہولیات فراہم کریں گے۔ کنٹینر میں قائم موبائل ہیلتھ یونٹ میں ڈائگناسٹک پلان،ایکسرے روم اورالٹرا ساؤنڈ روم بھی ہوگا۔فیلڈ ہسپتال میں جنرل او پی ڈی،حفاظتی ٹیکے،بنیادی تشخیصی ٹیسٹ کی سہولیات  بھی ہونگی۔ایک خبر یہ بھی ہے چیئرمین فلور ملز ایسوسی ایشن عاصم رضا کے مطابق پنجاب میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی نئی قیمت 2 ہزار روپے ہو گئی ہے۔چیئرمین فلور ملز ایسوسی ایشن کے مطابق گندم کی قیمت کم ہونے سے آٹا سستا ہوا ہے، فلور ملز نے کسانوں سے گندم کی خریداری شروع کر دی ہے۔عاصم رضا نے کہا کہ ہم کسانوں کے ساتھ ہیں، حکومت بین الصوبائی پابندی ختم کرے اور دوسرے صوبے گندم خرید کر پنجاب کے کسانوں کو نقصان سے بچائیں۔

ای پیپر دی نیشن