پاکستان کے سیاسی افق پر آئے روز رونما ہونے والی تبدیلیاں فوری طورپر سیاسی و معاشی استحکام کی نوید نہیں دے رہی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں ججز کے کام میں مداخلت کے حوالے سے کیس عدلیہ کی آزادی سے تعبیرکیا جارہاہے تو وفاق میں حکمران جماعت وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ کے خلاف عملی طورپر صف آراء ہوتی نظرآرہی ہے ۔مولانا فضل الرحمان پاکستان تحریک انصاف ، سنی اتحاد کونسل سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ملک گیر احتجاج کی جانب مائل کررہے ہیں،جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں نواز شریف کی ہدایات پر مسلم لیگ اسحاق ڈار کونائب وزیر اعظم بنانے کے بعد رانا ثناء اللہ کو بھی خصوصی مشیر بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کرچکی ہے وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کے سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے پیشرفت ہورہی ہے اور سعودیہ کی بڑی کمپنی نے پاکستان میں پٹرولیم کے شعبے میں سرمایہ کا معاہد ے کا آغاز بھی کردیاہے حکومت کی جانب سے معاشی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بھی کوئی مثبت اعشاریے نہیں مل رہے ہیں ایف بی آر کی جانب سے شروع کی جانے والی تاجردوست سکیم اپنے ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی۔ ہے تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 5لاکھ نان فائلرز کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ان کی موبائل سمز بلاکر کردی ہیں اس وقت ملک کی سب سے بڑی عدالت میں عدلیہ کی آزادی سے تعبیر کیا جانے والا مقدمہ زیر سماعت ہے جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے ان کے کام میں اداروں کی مداخلت اور دباؤ بارے کی جانے والی تحریری شکایات کو سنا جارہا ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے رولزپارلیمنٹ بناتی ہے اگر وہ مضبوط نہیں ہے تو کوئی اور ادارہ کیسے مضبوط ہوگا انہوں نے کہا ہے کہ استعمال نہیں ہونگے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنائیں گے عدالتوں میں مداخلت کے اس مقدمے میں کیا فیصلہ آتاہے یہ تو آنیوالے دنوں میں ہی پتہ چلے گا تاہم اس کیس کو لے کر سیاسی حلقوں میں بہت زیادہ بحث چل رہی ہے کہ اگر عدالت عالیہ حسب روایت اس کیس پر بھی کوئی سخت فیصلہ یا گائیڈ لائن نہ دے سکی تو ملک میں عدلیہ کی ساکھ کیلئے امتحان ہو گا اور عوام بھی مایوس ہوں گی۔ ان حالات میں فریقین کو حدود مقرر کرنا پڑیں گی جو ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔
وفاقی حکومت میں بھی سب اچھا نہیں چل رہا حکمران جماعت اپنی ہی کابینہ میں شامل وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ کے خلاف صف آرا ہو چکی ہے قائد مسلم لیگ (ن) میاں نوا زشریف خاموشی کو توڑ کر سیاسی سرگرمیوں میں واپس ایکٹیو ہو چکے ہیں میاں نوازشریف کے دورہ چین کو بڑی گہری نظر سے دیکھا جارہا ہے قیاس ہے کہ وہ رواں ماہ میں مزید غیر ملکی دورے کرنے کی بھی منصوبہ بندی کررہے ہیں ان کی ہدایات پر پہلے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم بنایا گیا ہے اورپھر رانا ثناء اللہ کو بھی وزیر اعظم کا مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعینات کردیا گیا ہے پہلے خبریں گردش کررہی تھیں کہ رانا ثنا ء اللہ کو مشیر داخلہ بنایا جارہاہے تاہم بعد میں ان کا پورٹ فولیو تبدیل کردیا گیا حکومت کی جانب سے اٹھائے جانیوالے اقدامات سب اچھے کی نوید نہیں دے رہے ہیں سیاسی حلقے یہ کہہ رہے ہیں مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں تیزی سے عوام میں غیر مقبول ہونے سے مستقبل کے خطرات کی بو آرہی ہے کہ اگر انہوں نے پارلیمان سے باہر رہ جانے والے رہنماؤں کواکاموڈیٹ نہ کیا تو الیکشن کمیشن میں رجسٹر ڈ ہونے والی نئی سیاسی جماعت میں لیگی اکابرین کی شمولیت کروائی جائے گی یہی وہ خدشات ہیں جن کی بدولت مسلم لیگ (ن) رانا ثناء اللہ ، خواجہ سعد رفیق ، مرتضی جاوید عباسی سمیت دیگر رہنماؤں کو جون تک حکومت میں کسی نہ کسی صورت میں کردار دے گی۔ سیاسی پنڈت یہ بھی کہتے ہیں مسلم لیگ (ن) وزیر خزانہ سے زیادہ وزیر داخلہ کے ساتھ کام کرنے میں بے چینی محسوس کررہی ہے اس لیے وہ کوشاں ہے کہ ان کا وزارت داخلہ کا قلمدان تبدیل کرنے کا ماحول بن جائے اور اس ضمن میں مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کو بھی اہم قرار دیا جارہاہے۔جمعیت علمائے السلام کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیاہے اور اپنی اس تحریک کانام انہوں نے (عوامی اسمبلی ) کا نام دیا ہے اور اس کا آغاز بھی بلوچستان سے کیا جارہا ہے ا س ضمن میں جے یو آئی کی قیادت مسلسل سنی اتحاد کونسل کے ساتھ رابطے میںہے اور دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان اس تحریک کو آگے لے کر چلنے پر اتفاق رائے بھی پایا جارہاہے تاہم دونوں جماعتوں کی قیادت کا ایک دوسرے پر تاحال اعتماد پوری طرح بحال نہیں ہوا ہے مولانا فضل الرحمان کو شکایت ہے کہ ان کا کے پی پے کے اندر مینڈیٹ چوری کیا گیا جبکہ خیبر پختونخواہ میں ان کو ہرانے والی جماعت پی ٹی آئی ہے تاہم دونوں سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اکھٹے بھی ہونا چاہ رہی ہیں ۔حکومت کو بظاہر تو اس احتجاج سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہاہے۔حکومت اپنا ریونیو بڑھانے اور تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے بھرپور کوشش کررہی ہے تاہم ان کوششوں میں تاحال کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہو پارہی۔ گزشتہ ماہ حکومت کی ہدایت پر ایف بی آر نے 31لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کے لیے تاجردوست سکیم کا اعلان کیا تھا ۔سکیم کے تحت اعلان کردہ تاریخ تک ایف بی آر صرف 200نئے ٹیکس دہندگان کی رجسٹریشن کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے ایف بی آر کا اس ضمن میں طے کیا گیا ہدف حاصل نہیں ہوسکا ہے اب محکمہ دوبارہ وزیر اعظم کی مشاورت سے اس سکیم کو توسیع دینے کی منصوبہ بندی کررہاہے۔حکومت کی ہدایت پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اہل ہونے کے باوجود ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے۔ 5لاکھ چھ ہزار نان ٹیکس فائلرز کی سمیں بلا ک کردی گئی ہیں اور اگلے مرحلے میں حکومت ان چھ لاکھ نان فائلرز کے بجلی اور گیس کے کنکشن کاٹنے کے احکامات بھی جاری کیے جارہے ہیں۔اس ضمن میں 145دفاترز ضلع کی سطح پر قائم کیے جارہے ہیں حکومت نے آئی ایم ایف کی گائیڈلائن کے مطابق 15جون تک 20لاکھ نئے ٹیکس دہندگا ن کو بہر صورت ٹیکس نیٹ میں لانا ہے اور اس ضمن میں حکومت سختی سے اس پر عمل درآمد کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔